لاہور میں وکلائے کرام کی تمام بارز عظیم جمہوری ادارے تسلیم کی جا رہی ہیں کیونکہ ان اداروں میں ہر سال نئے انتخابی انتظامات کئے جاتے ہیں اور پُرامن کنویسنگ کے ذریعے انتخابی مہمات کو نتائج تک پہنچایا جاتا ہے اور عموماً انتخابی نتائج کو بلا چون و چرا تسلم کر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ احمد اویس اور عاصمہ جہانگیر کے مابین 27 اکتوبر 2010ء کو پورے پاکستان میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت کے لئے جو مقابلہ ہوا اس میں ابتدائی اعلان کے مطابق عاصمہ جہانگیر 834 ووٹ لیکر جیت گئی ہیں جبکہ احمد اویس نے 796 ووٹ حاصل کئے اور نتائج کا اعلان ہو جانے کے بعد بڑے باوقار انداز میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا، ہم نے اس انتخابی معرکے سے تقریباً 20 روز پہلے ’’لاہوریات‘‘ میں ان انتخابات میں سخت مقابلہ ہو جانے کا امکان ظاہر کیا تھا کیونکہ پاکستان میں آزاد عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لئے جو تحریک چلائی گئی تھی اس کی قیادت یعنی چودھری اعتزاز احسن، حامد خان، علی احمد کرد اور منیر اے ملک نے ایک بند مٹھی کی طرح کسی ایک امیدوار کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے اپنے انفرادی فیصلے کے مطابق عاصمہ جہانگیر اور احمد اویس کا ساتھ دیا چنانچہ اس گروپ سازی میں حامد خان اپنے ساتھی صاحبزادہ انور حمید جیسے رفقائے وکالت کے ساتھ کھلے انداز میں احمد اویس کے ساتھ ہو گئے جبکہ علی احمد کرد اور منیر اے ملک نے بھرپور طور پر عاصمہ جہانگیر کا ساتھ دیا، یوں تحریکِ وکلا کی قیادت کا پُرکشش حصہ عاصمہ جہانگیر کو مل گیا اور ان کی پوزیشن روز بروز بہتر ہونے لگی، اعتزاز احسن اگر انتخابی منظر پر ظاہر ہوتے اور پروفیشنل گروپ کے امیدوار احمد اویس کا ساتھ دیتے تو علی احمد کرد کی مقررانہ کشش اور وکلائے کرام کی صفوں میں جٹ برادری کے گرو ڈاکٹر خالد رانجھا کا توڑ ہو سکتا تھا مگر اعتزاز احسن نے غائب ہو کر دراصل وہ پینترا اختیار کیا جس کا فائدہ عاصمہ جہانگیر کو ہو گیا اور صرف حامد خان کی استقامت و شجاعت اس حد تک احمد اویس کے کام نہ آ سکی کہ وہ وکلائے کرام میں دائیں بازو کے وکلاء کی نمایاں اکثریت کے باوجود بائیں بازو کے خیالات کی حامل عاصمہ جہانگیر کو اس طرح شکست دے دینے کے اہل ہو جاتے جس طرح انتخابی تیاریوں کے ابتدائی دنوں میں باور کیا جا رہا تھا، احمد اویس کے پورے پینل میں محمد محسن جاوید بطور وائس پریذیڈنٹ (بلوچستان) عبدالصادق چودھری بطور وائس پریذیدنٹ (پنجاب) ملک منظور حسین بطور وائس پریذیڈنٹ (خیبر پی کے) کے اے وہاب بطور وائس پریذیڈنٹ (سندھ) رانا فرمان علی صابر بطور سیکرٹری، ایم صالحین مغل بطور ایڈیشنل سیکرٹری اور سید اختر مہمند، تاج محمد مینگل، نور عالم خان، حامد شبیر نذیر، خالد محمود شیخ، میاں محمد جاوید، محمد اسلم گھمن، محمد سلیمان بھٹی، محمد یوسف خان نول، مسز تابندہ اسلام، عباس علی اور ضیاء احمد اعوان بطور ممبرانِ ایگزیکٹو بھی شامل تھے جبکہ عاصمہ جہانگیر کے پورے پینل میں جہاں زیب خان جدون بطور وائس پریذیڈنٹ (بلوچستان) محمد عارف خان بطور وائس پریذیڈنٹ (خیبر پی کے) زبیر خالد بطور وائس پریذیڈنٹ (پنجاب) شفاعت حسین بطور وائس پریذیڈنٹ (سندھ) قمر زمان قریشی بطور سیکرٹری، ذوالفقار احمد بھٹہ بطور ایڈیشنل سیکرٹری اور عبدالرشید اعوان، اقبال شاہ اور جعفر افنان خان (بلوچستان) محمد حبیب قریشی اور تنویر احمد (خیبر پی کے) ڈاکٹر سی ایم افضل جاوید، محمد سعد شبلی، ندیم صدیقی، رفاقت علی کاہلوں، وسیم ممتاز ملک (پنجاب) حاجی شفیق محمد چانڈیو اور محمد اسحاق ساتھی (سندھ) بطور ممبران ایگزیکٹو شامل تھے۔ اس معرکے میں عاصمہ جہانگیر پاکستان پیپلز پارٹی کی ہم خیال امیدوار اور بائیں بازو کی نمائندہ بیان کی جاتی رہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) لائرز فورم نے بھی عاصمہ جہانگیر کا ساتھ دیا۔ دریں حالیکہ پیپلز پارٹی لایرز فورم تو تھا ہی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اور رہی سہی کسر اکرام چودھری نے نکال دی کیونکہ تجزیہ کاروں کے نزدیک اکرام چودھری نے جو 127 ووٹ لئے ان میں تقریباً ایک سو ووٹ تو وہی تھے کہ اگر اکرام چودھری الیکشن سے باہر ہوتے تو وہ سو ووٹ احمد اویس کو مل جاتے تو علی احمد کرد اور منیر اے ملک کی حمایت کے باوجود اور اعتزاز احسن کے درپردہ چلے جانے کے باوصف احمد اویس جیت جاتے تاہم انہوں نے اچھے ووٹ لئے مگر نتائج توقع کے خلاف رہے، شاید اس کو انتخاب کہتے ہیں۔