اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سول سرونٹس غیر قانونی احکامات تسلیم نہ کریں، ایک ریاستی اہلکار کی حیثیت سے پبلک سرونٹ کو معاشرے کے دیگر افراد کےلئے ایک امید کی کرن ہونا چاہئے ،عدلیہ ملک کی آئینی و سیاسی تاریخ کو دوبارہ لکھے اور سابقہ گناہوں کی تلافی کیلئے کوشاں ہے تاکہ شفافیت ، قانون کی حکمرانی اور آئین میں دیے ہوئے حقوق کے نفاذ کو یقینی بنانے کےلئے نئی مثالیں قائم کی جائیں۔ وہ دور گیا جب کسی ملک کے استحکام اور سلامتی کا فیصلہ میزائلوں ، ٹینکوں اور مادی قوت کی بنیاد پر کیا جا تا تھا۔ آج ملکی سلامتی کا پیمانہ شہریوں کو معاشرتی تحفظ ، فلاحی اداروں کے قیام اور بنیادی حقوق کاہے۔ قومی اداروں کو قائم کرنے اور چلانے کےلئے ایک تعلیم یافتہ ، بہتر تربیت یافتہ ، متحرک اور مخلص بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ روز افزوں معاشی اور معاشرتی چیلنجوں کا ادراک اور ان کا ایک قابل عمل مختصر مدتی اور طویل مدتی حل تلاش کرسکے۔ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی نیشنل مینجمنٹ کالج لاہور کے 99 ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے مختلف گروپس کے سینئر افسران سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ مضبوط بنیادوں پر قائم ادارے پائیدار میکنزم اور معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی ترقی کےلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ قومی اداروں کو قائم کرنے اور چلانے کےلئے ایک تعلیم یافتہ، بہتر تربیت یافتہ ، متحرک اور مخلص بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ روز افزوں معاشی اور معاشرتی چیلنجوں کا ادراک اور ان کا ایک قابل عمل مختصر مدتی اور طویل مدتی حل تلاش کرسکے۔ بنیادی آئینی حقوق کو ان کی روح کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر یہ ریاست کی اور بڑی حد تک انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ بنیادی حقوق عوام کو نہ صرف آزادانہ طور پر حاصل ہیں بلکہ ان سے انکار کو سرعت کو ساتھ چیلنج کیا گیا ہے اور کم سے کم خرچ پر انکی داد رسی کی گئی ہے۔ یہ ایک آزاد اور فلاحی ریاست کے قیام کے بنیادی لوازمات میں شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ آج کل عدالتوں میں بہت سارے معاملات زیر سماعت ہیں جو آئین کے احکام پر عملدرآمد سے متعلق ہیں خواہ وہ کراچی یا بلوچستان میں امن وامان کامسئلہ ہو ، یا بُری حکمرانی اور احکام کی عدم تعمیل یا بدانتظامی کا معاملہ ہو قومی سطح پر ایسی مربوط کوششیں بروئے کار نہیں لائی گئیں جن سے ملک کے بڑے مسائل کا مناسب انداز سے حل نکالا جاتا۔ اس ادارہ جاتی ناکامی کا براہ راست تعلق اس بات سے ہے کہ سول سرونٹس قومی پالیسیاں بنانے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک متحرک میڈیا موجود ہے جو عوامی مفاد سے متعلق معاملات کی خبر گیری اور چوکیداری کررہا ہے۔ اس ملک کے اندر کثیر تعداد میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو عوامی فلاح سے متعلق معاملات پر یک آواز ہو جاتی ہیں اور پھر ہمارے پاس ایک آزاد عدلیہ ہے جسکی ذمہ داری میں یہ بھی شامل ہے کہ ملک کے اندر ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے خواہ آسمان ہی کیوں نہ گرِ جائے۔ کئی اہم فیصلوں میں ریاستی اداروں کو ہدایات دی جا چکی ہیں کہ وہ آئین وقانون کے مطابق عمل کریں اور اپنے حدود اختیار میں رہتے ہوئے سسٹم کو چلنے اور پھلنے پھولنے دیں۔ سپریم کورٹ بار کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں جسٹس افتخار نے کہا کہ شفافیت اور احتساب آئین و قانون کی حکمرانی کے بغیر ممکن نہیں۔ ترویج انصاف کے نظام کو بہترانداز میں چلانے کےلئے بنچ اور بار دونوں کی خودمختاری ناگزیر ہے۔ وکلاءاس نظام کا اہم اور بنیادی جزو ہونے کے ناطے بہتر سہولیات کے حقدار ہیں تاکہ وہ انصاف کی فراہمی کے لئے بہتر کام کر سکیں۔ ہمارا مقصد معاشرے میں انصاف کی فراہمی کے سوا کچھ نہیں اور اس مقصد کے لئے چھوٹا قدم بھی عظیم سمجھا جانا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ نے بے شمار فیصلوں کے ذریعے معاشرے میں امن کے قیام، شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ، شفافیت، احتساب، عوامی سرمایہ کے بے دریغ استعمال، زبردستی کی گمشدگی، غیر قانونی تقرر اور ترقیاں، قرضوں کی معافی جیسے مسائل کے تدارک کے لئے اصول وضع کئے۔ ترویج انصاف کے نظام میں وکلاء ہمارے اصولی شراکت دار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ انصاف کی نیکی کو تمام مذاہب اور علماء نے عظیم تر قرار دیا ہے اور یہ اللہ تعالی کا حکم اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔