سیّد نصیب اللہ گردیزی
برصغیر کی تقسیم کے بعد سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا قتل عام ہندوستان میں روز کا معمول بن گیا۔ گھیراو¿، جلاو¿ گرجا گھروں، گردواروں اور مساجد کا انہدام، آتش زنی اور بے حرمتی چھیاسٹھ سال گزر جانے کے باوجود بھی جاری ہے۔ ہندو رہنماو¿ں نے با امرِ مجبوری تقسیم ہند منظور کی تھی انہیں امید تھی کہ یہ نوزائیدہ ملک پاکستان جلد ہی گُھٹنے ٹیک کر ہندوستان میں دوبارہ ضم ہونے کی بھیک مانگے گا۔ تقسیم کا منصوبہ برطانیہ اور ہندوو¿ں کا مشترکہ فارمولہ تھا جسے اڑھائی ماہ میں مکمل ہونا تھا مگر ایک سازش کے تحت اقتدار کی منتقلی کا پُرامن رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ ایک ہی ماہ میں ایک کروڑ انسان بے گھر ہو گئے۔ پچاس لاکھ سے زائد انسان انتقال آبادی کے دوران زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نوزائیدہ پاکستان ذرائع اور سامان سے تہی دست کروڑوں زندہ اور مُردہ انسانوں کے مسائل تلے دب کر رہ گیا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو دھکیل کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا گیا۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی گورنر جنرل بننا چاہ رہا تھا۔ قائد اعظمؒ نے اس کی یہ تجویز رد کر دی تھی۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے ایک موقع پر قائداعظم کو بے پناہ غصے سے مخاطب کیا اور کہا کہ تمہیں خبر ہے کہ تمہیں اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ قائداعظم نے جواب میں کہا کہ کئی کروڑ روپے کے اثاثہ جات سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ اس کی قیمت تمہارے مکمل اثاثہ جات اور پاکستان کا مستقبل ہونگے۔ اس کے بعد ہر واقعہ و حادثہ جو رونما ہوا اسی شیطانی پلان کے تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے جو ماو¿نٹ بیٹن کے ذہن میں تھی۔ پاکستان کو اُس کے حصے کے مال و دولت سے محروم کر دیا گیا، دفتروں میں میز کرسیاں اور سیکرٹریٹ کی غیر موجودگی حتیٰ کہ کاغذوں پر لگانے کیلئے پیپر پِن بھی میسر نہ تھی۔ جب تقسیم ہند ناگزیر ہو گئی تو برطانیہ کے حکمرانوں نے ہندو کے ساتھ ذہنی اور عملی اشتراک سے ایک جامع سازش تیار کی جس کا انجام تقسیم ہند کی تحلیل اور اکھنڈ بھارت کے قیام کے حصول میں ممد و معاون ہو۔ مسٹر نہرو جو فرنگی راج کا کھلا دشمن تھا لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کی دعوت پر سنگاپور میں سپریم کمانڈر کے ہیڈ کوارٹر میں بلایا گیا۔ اس کا شاہانہ خیر مقدم کیا گیا اور مستقبل کا مشترکہ پلان تیار کرتے ہوئے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کا تقرر بحیثیت وائسرائے اور گورنر جنرل بھارت عمل میں لایا گیا۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے اپنے سیکرٹری مسٹر وی پی مینن سے تقسیم کا پلان لکھوایا اور یہ پلان مسٹر نہرو کو دکھلایا گیا تاکہ وہ اس کو منظور کرے۔ یہ پلان ہوائی جہاز کے ذریعے لندن بھیجا گیا اس کی توثیق ہوئی اور تقسیم ہند کا اعلان 3 جون 1947ءکو کر دیا گیا۔ مسٹر ریڈ کلف کے تحت باو¿نڈری کمشن میں دو بھارتی اور دو پاکستانی نمائندے شامل تھے۔ یہ کمشن جولائی 1947ءمیں تشکیل پایا۔ اگست میں یہ پلان لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے اس پلان میں ترمیم کیں اور 17 اگست 1947ءکو اس کا اعلان کیا گیا جبکہ 14 اگست 1947 کو پاکستان اور 15 اگست 1947ءکو ہندوستان وجود میں آ چکے تھے۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے ہاتھ سے کی گئی ترمیم میں پاکستان کیلئے بے شمار مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیئے۔ بنگال اور پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا۔ مسلم اکثریتی علاقہ گورداسپور بھارت کو دے دیا گیا تاکہ جموں و کشمیر تک اُسے رسائی حاصل ہو سکے۔ تقسیم ہند کے عمل کے آغاز سے پہلے ہی جموں کیلئے سڑک کی تعمیر اور پٹھان کوٹ کے نزدیک دریائے راوی پر پُل بنانے کا کام ہنگامی بنیادوں پر اور وہ بھی انتہائی خفیہ طریقے سے بھرپور رفتار کے ساتھ مکمل کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے گاندھی کو کشمیر بھیجا تاکہ مہاراجہ کو رام کیا جا سکے اور شیخ عبداﷲ کو رہا کیا جا سکے تاکہ کشمیر کا سازش پر مبنی الحاق ہو سکے۔ ماو¿نٹ بیٹن خود بھی سری نگر پہنچا مہاراجہ پر دباو¿ ڈالا کہ وہ کشمیر کا بھارت سے الحاق کا اعلان کرے اور یہ الحاق 15 اگست سے پہلے نہ کیا جائے حالانکہ اس تاریخ تک تمام انڈین خودمختار ریاستوں کو اپنی طرف سے الحاق کا اعلان کرنا تھا۔ یاد رہے کہ قائداعظم کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اگست 1947ءکو جو آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی اس تحریک کے مجاہدین نے آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ اور گلگت، بلتستان کو آزاد کراتے ہوئے سری نگر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی اور مجاہدین نے مہاراجہ کشمیر کو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ الحاق کا مشورہ دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ چونکہ کشمیر کا بیشتر حصہ مجاہدین آزاد کرا چکے ہیں اور 90 فیصد کشمیر کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور نظریاتی، جغرافیائی اور اقتصادی طور پر بھی کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ فطرت کے عین مطابق ہو گا۔ مسلم رعایا کے احتجاج کا سامنا نہ کر سکنے کی وجہ سے ریاست کشمیر کے مہاراجہ بمعہ سینکڑوں گاڑیوں کے جو ریاستی خزانوں کو اٹھائے ہوئے تھیں سری نگر سے بھاگ کھڑا ہوا اور جموں فرار ہو گیا۔ مجاہدین سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے اور جنرل اکبر نے پاکستان سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگی تھی اور یہ کہا تھا کہ مجھے یہ وقت دیا گیا تو پورے کا پورا کشمیر آزاد ہو جائے گا لیکن نامعلوم وجوہات کے تحت مہلت نہ دی گئی جو ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گا۔ 27 اکتوبر 1947ءکو بھارتی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اُتری اورکشمیر کی آزاد ریاست پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو گئی۔ الحاق کا ڈرامہ کشمیر پر حملے اور بھارتی افواج کی موجودگی کے زیر سایہ رچایا گیا تھا جس کا کوئی مراسلہ، کاغذ یا ڈاکیومنٹ کسی دستاویز ات میں دستیاب نہیں ہے۔ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو خود اس مقدمے کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے۔ 13 اگست 1948ءکو سلامتی کونسل نے متفقہ قرارداد منظور کی جس میں کشمیریوں کو اس کا حق دیا گیا کہ وہ آزادانہ حق خود ارادیت کے تحت اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ بھارت نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔ 66 سال گزرنے کے باوجود بھارت کی یہ ہٹ دھرمی جاری ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی برادری ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی کشمیریوں کے حق میں بے شمار قراردادیں منظور ہوئیں اور بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دے۔ بھارت نے دنیا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلسل کشمیریوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ بنیادی مسائل پر مذاکرات کامیابی سے جاری تھے تو ان کی حکومت پر جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا۔ عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے سابقہ حکمرانوں سے انتقام لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ نواز شریف بھاری مینڈیٹ لے کر تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے پاکستان کے بنیادی مسائل کے حل کے سلسلے میں اچھی خاصی شروعات کی ہیں۔ اُمید ہے کہ جلد ہی اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جاندار مو¿قف پیش کیا اور عالمی برادری کو یہ بآور کروایا کہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ روکنے اور اُس کو امن کا خطہ بنانے کیلئے کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو حل کیا جانا اشد ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دو ملکوں کے درمیان زمین کے ٹکڑے کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ حالیہ امریکی دورے کے دوران بھی صدر باراک اوباما سے کشمیر کے ایشو پر بات کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ امریکہ اگر چاہے تو اس مسئلہ کا فوراً حل نکالا جا سکتا ہے۔ان کے اس حوصلہ افزا مو¿قف سے کشمیریوں کی جدوجہد کو تقویت ملی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس یہ اُمید رکھتی ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیر کا آبرو مندانہ حل ممکن ہو گا۔