ےجون مےں میاں محمد نوازشریف نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف ا ±ٹھایا تو عام خیال یہی تھا کہ ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے عازمِ نیویارک ہوں گے تو امریکی صدر بارک اوباما کی بارگاہ میں شرفِ باریابی حاصل کر لیں گے۔ وزیراعظم ستمبر کے آخری ہفتہ مےں نیو یارک گئے لیکن امریکی صدر اوباما سے انکی ملاقات نہ ہو سکی حالانکہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور بعض دوسرے عالمی لیڈروں سے ا ±نکی ملاقاتیں ہوئیں۔ امریکی صدر سے وزیراعظم کی ملاقات نہ ہونا ایک خلافِ معمول بات تھی لیکن جلد ہی یہ اعلان سامنے آگیا کہ اکتوبر کے تیسرے ہفتے مےں وزیراعظم امریکہ کے باقاعدہ دورے پر تشریف لے جائیں گے اور امریکی صدر اوباما سے ا ±نکی ملاقات اور مذاکرات ہوں گے۔ یہ اعلان ایک لحاظ سے چونکا دینے والا تھا اور اس سے اس بات کا اشارہ ملتا تھا کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ معاملات اور قریبی تعلقات کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لینے کے موڈ میں نظر آتی ہے۔ پھر وزیراعظم کے امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں جن سے پاکستان کے بارے میں امریکی رویے میں مثبت تبدیلی کا اظہار ہوتا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی دنوں سے امریکہ میں تھے اور وہ عالمی مالیاتی اداروں کی اعلیٰ انتظامیہ سے مسلسل ملاقاتوں اور مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے بعض مراعات حاصل کرنے مےں کامیاب رہے تھے یہ امریکی اشیرباد سے ہی ممکن ہو سکا تھا۔ اس دوران یہ پیش رفت بھی ہوئی کہ امریکہ نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی 32 کروڑ ڈالر کی بقایا رقم کی فوری ادائیگی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی حکام کے حوالے سے یہ خبر اخبارات مےں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی کہ امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد جو پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے بند چلی آرہی تھی خاموشی سے جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امریکی کانگریس نے زیادہ تر رقم کی منظوری دے دی ہے اور پاکستان کو رقم کی فراہمی کا سلسلہ نئے سال کے آغاز میں شروع کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے برخلاف امریکی میڈیا کا یہ مثبت رویہ بھی سامنے آیا کہ ا ±س نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی امریکہ آمد اور موجودگی کے دوران پاکستان کو دبا ¶ میں لانے کیلئے اتفاقاً‘ عمداً یا امریکی حکومت کی ایما پر کوئی منفی خبریں یا سنسنی خیز رپورٹیں شائع کرنے سے بھی گریز کیا۔ غرضیکہ بظاہر اےک خوشگوار فضا اور سازگار ماحول میں وزیراعظم پاکستان کا دورہ شروع ہوا۔
وزیراعظم پاکستان کے چار روزہ امریکی دورے کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں اور آئیں گے اور ہم کیا ثمرات سمیٹنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے مےں ملی جلی آراءاور تاثرات کا اظہا رکیا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک وزیراعظم کا دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دورے ہمیشہ کامیاب ہی ہوتے ہیں۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ دورہ ناکامی سے دوچار ہی نہیں ہوا بلکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مےں وزیراعظم میاں نواز شریف کی امریکی انتظامیہ کے سیکرٹری سطح (وزرائ) یا ا ±ن سے بھی نچلی سطح کے اہلکاروں سے ملاقاتوں یا امریکی صدر کی دورے کے اختتامی دن وزیراعظم سے ملاقات سے وزیراعظم کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہے خیر یہ تو اےک طرح کی انتہا پسندانہ سوچ ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار کی دورے کے اختتام پر پاکستانی صحافیوں دی جانے والی بریفنگ سے دورے کی اہمیت‘ افادیت اور اس کے نتائج و ثمرات کے بارے میں بہت سارے گوشے آشکار ہوتے ہےں۔ امریکی سینئر عہدیدار کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا امریکہ کا دورہ ”جامع اور مثالی“ تھا۔ ا ±نھوں نے صدر اوباما کے ساتھ دو گھنٹے گزارنے کے علاوہ وزیرخارجہ‘ وزیر خزانہ‘ نائب صدر اور دےگر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں جن میں پاکستان کی معیشت‘ امن و امان کی صورتحال‘ سکیورٹی، سرحد پار دہشت گردی، تجارت میں فروغ، پاک بھارت تعلقات اور افغان استحکام سمیت تمام امور پر گفتگو ہوئی۔ امریکہ سینئر عہدیدار کے مطابق ڈرون حملوں پر امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی حافظ سعید سے متعلق ٹھوس شواہد پاکستان کو دے دیئے گئے ہیں پاکستان جماعت الدعوة پر پابندی عائد کرے۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے، عافیہ صدیقی پر مزید بات نہیں ہو گی‘ طالبان سے مذاکرات کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، سکیورٹی کے بغیر معیشت کی بہتری ممکن نہےں۔(جاری)
وزیر اعظم کے دورہِ امریکہ کے ثمرات
وزیر اعظم کے دورہِ امریکہ کے ثمرات
Oct 29, 2013