مسئلہ کشمیر اور ”بابا ٹل!“

میں اپنے کئی کالموں میں علامہ طاہرالقادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست ”باباٹل“ کا تعارف کراچکا ہوں جو کبھی کبھی میرے خواب میں آتے اور قومی اور بین الاقوامی مسائل پر میری رہنمائی کرتے ہیں۔ باباٹل نے اس بار یہ کہا کہ انہوں نے اپنے گلے میں لٹکایا ہوا ”ٹل“ (بڑا گھنٹہ) نہیں بجایا اور در آئے۔ وہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے انہوں نے علامہ القادری کے اندازمیں مبارک ہو! مبارک ہو کی آواز بلند کی اور کہا اثر چوہان صاحب اب توآپ خوش ہیں کہ القادری صاحب نے اپنا انقلابی دھرنا ختم کر دیا ہے اور وہ اپنی آنکھوں کے علاج کے لئے کینیڈا جا رہے ہیں؟
میں: آنکھوں کے علاج سے توکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہیں تو اپنے دفاع کے علاج کی ضرورت ہے؟
باباٹل: میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ کینیڈا میں علامہ صاحب کو کینیڈا کے دماغی امراض کے جدید ترین ہسپتال میں کئی دن بجلی کے جھٹکے دیئے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے ”دہن مبارک“ سے ہر وقت لعاب نکلتا رہتا ہے پھر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت کینیڈین حکومت کو یہ لعاب جذب کرنے کے لئے ان کے لئے خوشبو دار رومالوں اور ٹشو پیپرز کا کوٹہ مقرر کرنا پڑا۔
میں: باباٹل جی! مسئلہ کشمیر کے بارے میں علامہ القادری صاحب کی پالیسی کیا ہے؟
باباٹل: میری ان سے کئی بار بات ہوئی ہے لیکن انہوں نے ہر بار مجھے یہی کہا کہ جب میں پاکستان میں انقلاب لے آﺅں گا تو مسئلہ کشمیر خود بخود حل ہو جائے گا۔ اس وقت شری نریندر مودی یا جو کوئی بھارت کا وزیر اعظم ہو گا وہ اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر میرے دربار انقلاب میں پیش ہو کر کہے گا کہ اے قائد انقلاب اے شیخ الاسلام! کشمیر تو کیا بھارت کاکوئی اور صوبہ بھی مانگو تو دینے کو تیار ہوں۔
میں: 27 اکتوبر کو لندن میں کثیر ملین مارچ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
بابا ٹل: ملین مارچ بہت زبردست تھا دنیا بھر میں کشمیریوں، مسلمانوں اور انسانی حقوق کے علمبردار غیر مسلموں نے بھی اپنے اپنے انداز میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ اس طرح کے احتجاجی جلسے جلوسوں کا اہتمام ہر سال کیا جاتا ہے۔
میں: لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی لندن کے کشمیر ملین مارچ میں تقریر کے دوران بہت بدمزگی ہوئی انہیں اپنی تقریر مختصر کر کے برطانوی سکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت میں وہاں سے رخصت ہونا پڑا اور ان کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری کو بھی؟
بابا ٹل: دراصل عزیزم بلاول خوش فہمی کا شکار تھے۔ انہیں پیپلز پارٹی کے کسی جیالے نے بتایا ہو گا کہ جناب چیئرمین آپ نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں دو تین بیانات جاری کر کے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ پھر لندن سے کشمیر ملین مارچ کے کسی کارکن لیڈر نے عزیزی بلاول کو یہ پیغام بھجوایا کہ....
سجنا ایہہ محفل اساں تیرے لئی سجائی اے
بس پھر کیا تھا۔ بلاول جی لندن پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے والد گرامی جناب آصف زرداری کا وہ بیان بھی بھلا دیا جو انہوںنے صدر پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد جاری کیا تھا۔
میں: زرداری صاحب کا بیان؟ کشمیر پالیسی سے متعلق بیان؟ میں کچھ سمجھا نہیں؟
باباٹل: قربان جاﺅں آپ کی صحافت پر؟ محترم زرداری نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی کہا تھا کہ کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے منجمد کر دیں؟
میں: ارے ہاں! مجھے یاد آیا۔ صدر زرداری نے ایسا کہا تھا ؟
باباٹل: لیکن جناب زرداری کو صرف 5 سال تک مسئلہ کشمیر کومنجمد کرنے کا موقع مل سکا۔ 30 سال تک صدر پاکستان منتخب ہو جاتے تو اپنے قول کو سچ ثابت کر دیتے۔ بہرحال اس معاملے میں وفاقی وزیر کے برابر مراعات کے حامل مولانا فضل الرحمن نے بھی چیئرمین ”کشمیر کمیٹی“ کی حیثیت سے جناب زرداری سے بھرپور تعاون کیا۔ شاید صدر آصف علی زرداری کے کسی خصوصی مشیر نے یا ان کے پیر صاحب نے ہدایت کی ہو گی کہ مولانا فضل الرحمن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی بنا دو، باقی کام مولانا صاحب خود سنبھال لیں گے۔ اثر چوہان! یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ مولانا فضل الرحمن چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے بھارت کے دورے پر تشریف لے گئے انہوں نے بھارتی حکمرانوں سے مسئلہ کشمیر کے حل پر بات نہیں کی۔ حکومت پاکستان کے خرچ پر اپنے بزرگوں کی یادگار ”دارالعلوم دیوبند“ کی تقریبات میں شرکت کے لئے گئے۔
میں: بابا ٹل جی! مولانا فضل الرحمن تو کشمیری وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں بھی چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں۔ یہ مولانا صاحب کا کمال فن ہے یا کسی اور کا؟
بابا ٹل: اسے آپ ”جمہوریت کا تسلسل“ کہہ سکتے ہیں ممکن ہے وزیر اعظم نواز شریف بھی یہی چاہتے ہوں کہ مسئلہ کشمیر کو منجمد کر دیا جائے۔
میں: لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے 26ستمبر کوعالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر کے حل پر دلائی تھی؟
بابا ٹل: لیکن جناب نواز شریف نے تو 11 مئی 2011ءکے انتخابات کے فوراً ہی بعد بیان جاری کر دیا تھا۔ عوام نے مسلم لےگ ن کو بھارت سے دوستی اور تجارت کرنے کے لئے ووٹ دیئے ہیں اور اس کے بعد آپ نے دیکھا ہو گا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم ہاﺅس میں بیٹھے امن کی آشادیوی کے پجاریوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے عوام اور خواص کو یہی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہئیے اور اس سے تجارت کر کے پاکستان کو خوشحال بنایا جائے۔
میں: اور مسئلہ کشمیر؟ مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوگا؟ آپ تو بابا ٹل ہیں؟ کوئی نہ کوئی تو حل نکالیں؟ آپ کے بارے میں توایک لوک گیت مشہور ہے جس میں کہا گیا تھا کہ....
جدوں آئے گا بابا ٹل
سارے مسئلے کرے گا حل
بابا ٹل: دراصل مجھے بھی اپنے دوست علامہ القادری کی طرح دنیا کے 90ملکوں میں اپنے کاروبار کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ میں نے اپنی حب الوطنی کو مجروح نہیں ہونے دیا مجھے میرے کئی دوستوں نے بھارت سے تجارت کرنے پر ورغلایا ہے لیکن میرے گلے میں لٹکا ہوا ٹل میرا ضمیر بن کر خود بخود بج گیا۔
میں: پھر تو آپ کا یہ ٹل بڑے کام کی چیز ہے؟
بابا ٹل: ہر ٹل کام کی چیز نہیں ہوتا اثر چوہان صاحب! کار آمد ٹل وہ ہوتا ہے جو وقت ضرورت ضمیر بن کر خود بخود بج اٹھے۔
میں: کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے ہر سیاستدان خاص طور پر پارلیمنٹ اور ارکان صوبائی اسمبلی کے گلے میں ایک ایک ٹل باندھ دیا جائے؟
بابا ٹل: اس کے لئے تو قانون بنانا پڑے گا اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ قانون بنانے کا اختیار ارکان پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ ٹل باندھے بغیر سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس جوادایس خواجہ نے ایک مقدمے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے اصول پر عملدرآمد شروع ہو جائے تو شاید پارلیمنٹ کی موجودہ نشستوں کے لئے آدھے امیدوار بھی نہ مل سکیں۔
میں: میں پھر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آتا ہوں؟
بابا ٹل: بڑے شوق سے آئیں مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لیکن مجھے اپنے وزیر اعظم صاحب سے جلد از جلد پوچھ کر بتائیں کہ اگر وہ واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ ہیں تو کوئی کل وقتی وزیر خارجہ کیوں نہیں رکھتے؟ میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ہمارا کل وقتی وزیر خارجہ فیلڈ مارشل صدرایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کسی وقت ترنگ میں آ کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ”INDIAN DOGS“ کی اصطلاح استعمال کرے۔
میں: المختصراً کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں؟
بابا ٹل: علامہ اقبالؒ پہلے ہی کہہ گئے تھے کہ ”قومے فروختند وچہ ارزاںفروختند“۔ یہ کہہ کر بابا ٹل ٹل بجائے بغیر چلے گئے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔

ای پیپر دی نیشن