آج ایک بار پھر آرمی کا گراف عروج پر ہے جنرل راحیل ہر دلعزیزی کے اوج کمال پر ہیں۔ آلام و مصائب اور شورش سے اٹے ماحول میں عوام نے اپنی تمام تر امنگیں اور امیدیں فوج کے ساتھ منسلک کر لی ہیں؟کیا مقبولیت کا یہ پارس قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے؟ کیا فوج نجات دہندہ اور مسیحا بنے گی؟ یہ سیاسی افق پر ابھرنے والا اہم ترین اور بڑا سوال ہے ۔کیوں اور کیسے؟آیئے پہلے ماضی کے دریچے میں جھانک لیں۔
اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بانی پاکستان کی وفات کے فوراً بعد باسکٹ بال بن گیا تھا۔ سلامتی کی ضامن فوج نے سول بیوروکریسی اور سیاسی عناصر کی کمزوریوں کے سبب پیدا ہونیوالا خلا نہ صرف پورا کیا بلکہ اپنا مستقل سایہ ڈال کر عمومی سرپرستی (سپون فیڈنگ) کے ذریعہ اپنی ناگزیری کی حدود وسیع تر کرلیں۔ سیاست دانوں سے رضا کارانہ طور فوج کے پلے بیک میوزک پر ناچنا شروع کردیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالنے کیلئے جنرل ایوب کی قیادت میں ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ شاید اس وقت فوج کا ادارو سیاسی لحاظ سے قائم تھا کیونکہ چند جرنیلوں نے بالا بالا فیصلے کرتے وقت نہ تو آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا نہ انقلاب کی ضروریات کا کما حقہ ادراک کیا نہ ہی ترقی پسند معاشرے کی بیل کیلئے ضروری تحقیق وترتیب کا کوئی نظام وضع کیا،زرعی اصلاحات کا ڈھونگ ضرور رچایا گیا مگر بڑھتی آبادی،معاشرتی مسائل اور معاشی اصلاحات کے بنیادی سوالوں کو چھوا تک نہیں گیا۔ صدارتی نظام ایسے ان گھڑت اور بھونڈے طریقے سے اپنایا کہ جمہوریت اور اسلام دونوں کے چہروں پر بیک وقت کالک مل دی گئی۔ مقصد صرف شخصی اقتدار کا تحفظ تھا۔ مزید یہ کہ جرنیلوں کے عزیزو اقارت نے ملکی وسائل پر اس دیدہ دلیری سے ہاتھ پھیرا کہ ٹائی کونوں اور جاگیرداروں کی ایک نئی فہرست سامنے آگئی۔ کل کے میجر کیپٹن راتوں رات صنعتوں ،جاگیرداروں اور اعلیٰ سول عہدوں پر براجمان ہو گئے۔ اس مارا ماری نے فیلڈ مارشل کے اقتدار کو تری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی تصویر بنا دیا۔ پہلے مارشل لا کے بعد فوج کا ادارہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت فوج کی عسکری دسترس مسلمہ تھی مگر سیاسی عدم استحکام نے فوجی استحکام کو دھڑام سے چت کر دیا اس موقع پر فوج بطور ادارہ مطلوبہ سیاسی سوجھ بوجھ کا امتحان پاس نہ کر سکی ۔ اس بڑے حادثے کے نتائج کو پلے باندھنے کے بجائے فوجی قیادت (جنرل ضیاء الحق) نے ذاتی پسند ناپسند طالع آزمائی کے تحت جلد بازی میں فیصلہ کیا تحقیقی وتنظیمی بلیو پرنٹ کے بجائے بدقسمت جرنیل نے قومی مستقبل کو اسلام کے اٹکل پچو نعرے کا گروی کر دیا۔ عظیم عوامی لیڈر بھٹو کو راہ کا پتھر جان کر ملکی مفاد کو چٹکی میں اڑانے کا عمل وہ اندو ہناک غلطی تھی جسے شاید تاریخ کبھی معاف نہ کرے اور سول ملٹری اختلاف کا یہ آتش فشاں شاید کبھی خوابیدہ نہ ہوسکے۔ اسلحہ اور انتظامی دیانت کے سبب فوج آخری فیصلہ کن قوت تو بن گئی لیکن آدم خور شیر کی طرح دہشت کی علامت بھی کیونکہ اسکے بعد سیاست دانوں میں بیرون ملک اثاثے رکھنے کا رجحان زور پکڑ گیا۔ جنرل مشرف نے ذاتی عناد،انااور اختلاف کے آتش فشاں کی راکھ سے منظر دھند لایا مگر اس بار سات نکاتی ایجنڈہ اکیڈیمک اورعملی طور پر پہلے کے ادھورے پروگراموں سے کافی ہٹ کر تھا اب توقع تھی کہ ملٹری کا ادارہ بلوغت بلکہ بزرگی کے خصائص کے ذریعہ عارضی وقتی فیصلوں کے بجائے مسائل کا دیرپا حل سامنے لاکر نہ صرف پچھلی کمیوں کوتاہیوں کا ازالہ کردیگا بلکہ ملک کو بے مثال فلاحی مملکت بنانے کے راستے پر ہمیشہ کیلئے گامزن کردیگا۔ مگر بسا اے آرزو کہ خاک شد! جنرل مشرف اپنے عزم پر قائم نہ رہ سکے اور اپنے سات پوائنٹ رفتہ رفتہ لیجی ٹی میسی کے جام میں گھول کر پی گئے۔ شاید تاریخ کا یہ سبق کسی حکمران کی نظر سے نہیں گزرا کہ اقتدار کا جواز اسکے دوران ہونے والی عوامی خوشحالی ،ترقی اور امن وامان سے گندھا ہوتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرف نے بھی کارکردگی کا تمغہ سینے پر سجانے کے بجائے پیٹھ پر اسمبلیوں کا پٹھو باندھ لیااور خوار وخجل ہوگئے۔ آج فوج سب سے برتر بزرگ اور مقتدر ادارہ ہے سلامتی ، سیاسی ،معاشی ہر ہر شعبہ میں اس کی دسترس اور تحقیق سپرپاور کے ہم پلہ ہے بوجہ ایٹمی صلاحیت عالمی اہمیت سونے پر سہاگہ ہے۔ ملک کے حالات کو سنوارنے کا کام کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ ماضی کے داغ دھبے دھونے کا فرض بھی اسی ادارے کا بنتا ہے۔ اب اگر قوم توقعات باندھ رہی ہے تو کچھ بعید بھی نہیں۔ قوم نے بہت انتظار کر لیا اب اس سے بہتر موقع تاریخ وطن میں شاید دوبارہ نہ آئے۔ یہ کام پلے بیک ہی بہتر ہو گا۔ سامنے آنے کی ضرورت ہرگز نہیں مگر ایک بات لازم ہے کہ فوج بطور ادارہ ایک سیاسی چارٹر طے کرے ایسا بنیادی فیصلہ جس پر فوج کی آنیوالی ساری نسلیں کار بند ہوں ملک کے بہترین مفاد میں ایس ایس جی کی طرح اثرانداز ہونے کا فیصلہ۔غائب ان دیکھے طلسمی مسٹر پاکستان کی طرح ہر جگہ فرشتے کی طرح انٹرفیئر کرنے کا فیصلہ۔ جمہوریت کی نائکہ بھی ناچتی رہے الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کے تھیٹر چلتے رہیں مگر ہر شعبہ زندگی سے کرپشن اور بدیانتی کا نام ونشان مٹ جائے۔ طویل بیماری اور بری عادات کا شکار معاشرہ کسی اور حربے سے قابو میں آنے کا نہیں۔ ضرب عضب کی طرح ایک اور ضرب! ضرب یدالٰہی!یہ ضرب بھی صرف اور صرف فوج کے بس میں ہے ملک وقوم کے تابناک مستقبل کیلئے۔ ناکامی اور مرگ امید کے لبوں پہ آخری بوسہ!ہمیشہ کیلئے امر کردینے والی ٹھوکر!فوج کا ادارہ یونیٹی آف کمانڈ کے سبب کامیاب وکامران ہے ملک کی ترقی وخوشحالی کیلئے بھی بھانت بھانت کی چرخ چوں کے بجائے خلافت نما مرکزیت درکار ہے۔ براہ راست چنیدہ ایک رہنما جوکسی ماحول کو خاطر میں لائے بغیر کن فیکون کے ذریعہ معجزے برپا کرے!