اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری ایڈمرل علی شام خانی نے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔ ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات میں پاکستان اور ایران نے اپنے سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی روابط آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے فروغ کیلئے قریبی تعاون کا عزم ظاہر کرتے ہوئے افغانستان سمیت مختلف علاقائی امور پر پاکستان ایران تعاون مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ علی شامخانی نے ناصر خان جنجوعہ کو قومی سلامتی مشیر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے مشترکہ سلامتی مقاصد کے حصول کیلئے ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خوشگوار ماحول میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں دونوں اطراف نے اُبھرتی ہوئی علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ مشیر قومی سلامتی نے شامخانی کو مشترکہ جامع لائحہ عمل (جی سی پی او اے) کامیابی سے طے پانے پر مبارکباد دی جس سے ایران کیخلاف پابندیوں کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس لائحہ عمل پر عملدرآمد سے پاکستان ایران تعلقات مزید مستحکم ہونگے۔ انہوں نے ایڈمرل علی شام خانی کو افغانستان میں امن و استحکام کے فروغ کیلئے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ علی شام خانی نے مختلف حیثیتوں میں پاکستان کے گزشتہ دوروں کا ذکر کرتے ہوئے علاقائی سلامتی صورتحال کے بارے میں ایران کے موقف کے بارے میں آگاہ کیا۔ سرتاج عزیز سے ملاقات کے دوران پاکستان اور ایران نے معیشت کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے، گوادر چاہ بہار کی بندرگاہوں کے درمیان روابط بڑھانے ،گیس پائپ لائن منصوبہ کو سرعت سے مکمل کرنے داعش سمیت شدت پسند تنظمیوں کے خلاف ملکر لڑنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ بات دوطرفہ مذاکرات کے بعد یہاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز اور شام خانی نے بتائی۔ سرتاج عزیز کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران علی شام خانی نے بھارت میں گائے کے ذبیحہ پابندی کی مخالفت کی اور کہا کہ مسلہ کشمیر کا سیاسی پرامن حل اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالا جائے ۔ خطہ کی صورتحال پاکستان اور ایران سے تعاون بڑھانے کی متقاضی ہے۔ پاکستان کی گوادر اور ایران چاہ بہار کی بندرگاہوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں۔ گیس پائپ لائن سمیت بہت سے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ بعض غیر ملکی قوتیں پاکستان ایران سرحد پر ناپسندیدہ سرگرمیوں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں جن سے مل کر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ایران نے پاکستان کو داعش سمیت اس جیسے دیگر دہشت گرد خطرات سے مل کر نمٹنے کی پیشکش کی ہے۔ ایران نے تہران میں منعقد ہونے والی گیس سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیراعظم نواز شریف کودعوت دی ہے، اس پاکستان فائبر آپٹکس کے ذریعہ دونوں ممالک کو ملانے کے منصوبے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے صوبوں بلوچستان اور سیستان میں تعاون پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کی افواج اور دفاعی شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ علی شام خانی نے کہا کہ ان کا ملک یمن کی صورتحال کے حوالہ سے پاکستانی موقف کا شکرگزار ہے۔ دونوں ممالک داعش سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں سے مل کر مقابلہ کریں گے ۔ بعض قوتیں داعش کا سہارہ لیکر دوسرے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہیں، ایران ان کا مقابلہ کرے گا۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ اقدامات اور کشمیر کے بارے میں سوال کے جواب میں علی شام خانی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف صہیونی سازشیں کر رہے ہین جن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ذبیحہ پر پابندی لگا کر کسی کو اس کے دین سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ کشمیر کے حوالے سے ایران کا مئوقف ہے کہ یہ مسئلہ سیاسی طور پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ شام پر جنگ مسلط کی گئی ہے ۔اس کا سیاسی حل ہونا چاہئے، ہم ویانا میں ہونے والی شام کانفرنس میں پیشگی شرائط کے بغیر شریک ہوںگے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ علی شام خانی سے تفصیلی مذاکرات ہوئے ہیں جن میں دوطرفہ و علاقائی سلامتی کے تمام موضوعات شامل تھے۔ ایران کے جوہری معاہدے پر عملدرآمد سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی شعبوں میں تعاون کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے جس کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ شام میں روسی ہوائی حملوں کے حوالے سے پاکستان ابھی اپنا موقف بیان نہیں کرنا چاہتا تاہم ہم شام کے مسئلہ کا پرامن سیاسی حل چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کی لعنت اور سمگلنگ و ڈرگ ٹریفکنگ سے پیدا شدہ مسائل سے مل کر نمٹنے پر اتفاق کیا ہے۔ ایک سوال پر سرتاج عزیز نے کہا کہ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے عمل اور پاکستان کی کوششوں سے ایرانی حکومت کو آگاہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ افغانوں کو کرنا ہے کہ وہ مصالحتی عمل کو کس طرح آگے بڑھانا چاہتے ہیں تاہم اس حوالے سے پاکستانی کوششوں کو زیادہ بہتر بنانے کے لئے ایرانی تعاون کو سراہا جائے گا۔سرتاج عزیز نے کہا کہ ملاقات سودمند رہی۔ پاکستان ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان ایران سے اقتصادی تعلقات کا فروغ چاہتا ہے، سمگلنگ اور منشیات کی نقل و حمل ایران اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ شام مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ علی شام خانی نے کہاکہ ایران پاکستان میں زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے تیار ہے۔ خطے میں بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ گیس برآمد کرنے والے ملکوں کا سربراہ اجلاس ایران میں ہوگا۔ نواز شریف کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ بعض طاقتیں اپنے ایجنڈا کیلئے داعش کو استعمال کررہی ہیں۔ داعش سمیت ہر دہشت گرد تنظیم کیخلاف تعاون کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کی افغانستان میں سہولت کاری کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ افغانستان میں امن سے خطے میں امن ہوگا۔ یمن سے متعلق پاکستان کے موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ این این آئی کے مطابق پاکستان اور ایران نے تجارت، سرمایہ کاری، دہشت گردی کیخلاف جنگ اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ سرتاج عزیز نے کہا پاکستان ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور ہر قسم کی دہشتگردی کی مخالفت کرتا ہے۔
اسلام آباد (نیٹ نیوز + ایجنسیاں) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر کچھ اثر و رسوخ ضرور ہے تاہم ان پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کام مذاکرات کے حوالے سے سہولت کار کا ہے، انہیں بحال کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان افغان مصالحتی عمل کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ یہ اب افغان حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بھی ایسا چاہتے ہیں یا نہیں۔ دورئہ امریکہ میں پاکستان کی تشویش سب سے زیادہ بھارت سے متعلق تھی، امریکی حکام کو بتا دیا کہ پڑوسی ملک کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس حوالے سے ثبوت بھی فراہم کئے گئے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے باوجود امریکہ کی مودی حکومت کے ساتھ دفاعی تعاون پر تحفظات سے بھی واشنگٹن کو آگاہ کیا ہے۔ دنیا مانتی ہے کہ پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام مضبوط ہے، جوہری ہتھیار مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ امریکہ کو بتا دیا ہے کہ ملکی دفاع کیلئے کون سا ہتھیار بنانا ہے اور کون سا نہیں، اس حوالے سے فیصلہ پاکستان خود کرے گا۔ انتہا پسندوں کے رویئے سے بھارت میں موجود اقلیتوں نے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کردیا ہے۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے کہا کہ 9/11کے بعدامریکہ کوافغانستان میں مداخلت سے کچھ حاصل نہیں ہوا، مقاصد حاصل نہیں کرسکا امریکہ افغانستان میں مفاہمت چاہتاہے اورمذاکرات پر زور دے رہاہے ،وزیراعظم کادورہ امریکہ کامیاب رہا، دونوں ممالک کے درمیان تحفظات دور ہوئے ،بھارت سے تعلقات کی بہتری کیلئے مسئلہ کشمیرکاحل اہم ہے ،بھارت کوبھی جلداحساس ہوگاکہ اس سے باہمی احترام پرمبنی تعلقات چاہتے ہیں ،بالادستی قبول نہیں کریں گے۔ حکومت نے دہشتگردی کے خلاف مؤثرحکمت عملی اپنائی امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ،ہم ترقی کی جانب بڑھے ہیں معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ پاکستان قومی سلامتی کے امورپرکوئی سمجھوتہ نہیں کریگا،پاکستان کے نیوکلیئرپروگرام کے کمانڈاینڈکنٹرول کو پوری دنیانے تسلیم کیا، پاکستان کاجوہری پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کامقصد تعلقات میں وسعت لاناتھا،پاکستان امریکہ کے ساتھ کثیرالجہتی تعلقات چاہتاہے، دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات مستحکم کرنے پربات ہوئی ،ہم سائنس وٹیکنالوجی کے شعبوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں وسعت چاہتے ہیں ،پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کافروغ غیرمشروط چاہتاہے۔ امریکہ اورپاکستان کے درمیان اعتمادکافقدان تھا، وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے پاکستان اورامریکہ نے باہمی تحفظات دور کئے ،پاکستان امریکہ نیوکلیئرورکنگ گروپ میں بھی پیشرفت ہوئی۔ امریکہ کے دورے میں ڈومور کاکوئی ذکرنہیں ہوا،بلکہ ہم نے ڈومورکرنے کیلئے بھارت کے ساتھ برابری اورباہمی احترام پرمبنی تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت سے باعزت طریقے سے بات کرنی ہے ،پاکستان اوربھارت میں تعلقات کی بہتری کیلئے مسئلہ کشمیرکاحل نہایت اہم ہے اورامریکہ بھی مسئلہ کشمیرکے حل کی بات کرتاہے۔کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے اوربھارت کے اندربھی ری ایکشن ہورہاہے ،ہم بھارت کے ساتھ کشمیرسمیت تمام مسائل کاحل مذاکرات کے ذریعے پرامن چاہتے ہیں لیکن پاکستان اوربھارت کے درمیان مسائل کے حل کیلئے مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہورہی، بھارت کوجلداحساس ہوگاکہ مسئلہ کشمیرکے حل کے بغیر پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ افغان حکومت کے مذاکرات کے فیصلے کے بعدباقی باتیں ہوں گی اگرافغان حکومت مذاکرات کافیصلہ نہیں کرتی تواگلاقدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ افغانستان کے مسئلے کافیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہئے،افغان حکومت اگرمذاکرات کافیصلہ کرتی ہے توپاکستان مذاکرات کے لئے کردار ادا کرنے کوتیارہے ،ہم نے چین سے بھی بات کی ہے۔افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان امریکہ چین اور افغانستان مل کرروڈمیپ بنائیں گے۔ امریکہ سے امداد کی بات نہیں کی تجارت کی بات کی ہے۔ پاکستان امریکہ سے کثیر الجہتی تعلقات چاہتا ہے۔ حکومت نے دہشت گردوں کیخلاف موثر حکمت عملی بنائی ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات کی بہتری میں مسئلہ کشمیر اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ سے دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے پر بات ہوئی۔ افغانستان سے اشرف غنی کے حکومت میں آنے کے بعد سے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کیخلاف بھارت کے ریاستی عناصر دہشت گردی کررہے ہیں۔ بھارت کو دستاویزات اس وقت دی جائیں گی جب تمام ایشوز پر بات ہوگی۔ پہلے جامع مذاکرات کے ذریعے 8 ایشوز پر بات ہونا تھی۔ اوفا میں بھارت سے سمجھوتہ ہوا تھا کہ تمام معاملات پر بات چیت ہوگی۔ مسئلے کے حل کے لئے افغان حکومت کی یکجہتی ضروری ہے۔ افغان فوج طالبان کو مزید بڑھنے سے روکے۔ امریکہ کو احساس ہوا ہے کہ پاکستان چین تعلقات کسی تیسرے ملک کیخلاف نہیں۔