بات بہت پرانی ہے مگر اسے دہرانا ضروری ہے۔ ہاں وہی بات جو یاد دلاتی ہے کہ آدمی کتے کو کاٹ لے تو خبر بنتی ہے ورنہ معمول کی بات ہے۔ اسی بات کی وجہ سے رپورٹر کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ معمول کے خلاف ہوتے معاملات پر نگاہ رکھے۔
ان معاملات کی سیدھی سادی رپورٹنگ شاید حکمران برداشت کرلیتے ہیں۔ مزاج شاہی کو ناگوار مگر وہ کالم محسوس ہوتے ہیں جو ”انسان نے کتے کو کاٹ لیا“ والے معاملات کو ذرا طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔
میری بدقسمتی یہ رہی کہ 1985ءکے بعد سے بتدریج رپورٹنگ سے ذرا ہٹ کر قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی روئداد کالموں کے ذریعے بیان کرنا شروع ہوگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا رویہ میرے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رہا مگر اپنی دونوں حکومتوں کے دوران اکثر صبح اُٹھ کر اپنے سٹاف یا چند بااعتماد وزراءسے یہ سوال پوچھنے پر ضرور مجبور ہوتیں کہ ”نصرت کو کیا ہوا ہے؟ وہ میری حکومت پر اتنی زہریلی تنقید پر کیوں مائل ہورہا ہے“۔ حق بات مگر یہ بھی ہے کہ اپنے خلاف لکھی سخت ترین تحریر کو بھی انہوں نے کبھی ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ جب بھی ملاقات ہوئی اپنے اقدامات کا بڑی شدت کے ساتھ دفاع کیا۔ تلخ ترین تبادلہ کلمات کے باوجود شفقت ہی برقرار رکھی۔
نواز شریف 1990ءمیں وزیر اعظم بن کر اسلام آباد تشریف لائے تو مزاج ضرورت سے کہیں زیادہ شاہی ہوا کرتا تھا۔ ان کے وفاداروں کا ایک کافی بڑا اور مو¿ثر گروپ بھی تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر پہنچنے سے قبل ہی وہ کالم مختلف ذرائع سے خط کشیدہ ہوئے ایک موٹی فائل میں رکھے ان کی میز پر پائے جاتے جو ”ہمارے مخالفوں نے دشمنوں کے کہنے پر لکھوائے ہیں“۔
قومی اسمبلی پر اپنا کالم میں ان دنوں The Nationکے لئے لکھا کرتا تھا اور وزیر اعظم مجید نظامی صاحب سے اکثر اور بڑے احترام سے ملاکرتے تھے۔ نواز شریف کو خوب علم تھا کہ ان کے سامنے نوائے وقت یا The Nationمیں چھپی تحریروں کی شکایت کرنا بے سود ہے۔ بالآخر ایک دن مگر پھٹ ہی پڑے۔ ایک دن میرے چند کالموں کا حوالہ دے کر مجید صاحب کو ”اطلاع“ دی کہ میں پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کے خلاف سازشی کہانیاں لکھتا رہتا ہوں۔ مجیدصاحب نے جواب دیا تو صرف اتنا کہ وہ خود تو لاہور میں ہوتے ہیں جبکہ میں اور وزیر اعظم دونوں اسلام آباد میں مقیم۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر تبادلہ خیالات کیوں نہیں کرتے تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔ مجھے انہوں نے صرف اتنا بتایا تھا کہ ”آپ کے لاہوری وزیر اعظم The Nationسے کافی کبیدہ خاطر دکھ رہے ہیں“۔ تفصیلات کاعلم اس وقت کے وزیر اطلاعات مرحوم عبدالستار لالیکا کے ذریعے ہوا تھا۔
بہرحال نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت رخصت ہوگئی۔ پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی اور فارغ ہوئی اور نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔ محترمہ کی اپوزیشن کے دنوں میں انہیں تھوڑا اندازہ ہوا کہ حکومتوں کے بارے اُکتائے ہوئے رہنا شاید میرا Default Modeہے۔ کچھ عرصہ کشادہ دلی سے برداشت کرتے رہے۔ بالآخر آنے والی تھاں پر واپس آگئے۔
نواز شریف کی تمام تر خفگی اور ان کی دوسری حکومت پر بھی مستقل تنقید کے باوجود میں نے 12اکتوبر 1999ءکے اقدام کوکبھی جائزنہیں سمجھا۔ اس کے باوجود حیرت ہوئی جب 17ءاکتوبر1999ءکو پی ٹی وی کے ایم ڈی یوسف بیگ مرزا نے فون پر مطلع کیا کہ اس شام جنرل مشرف قوم سے خطاب کریں گے۔ اس خطاب کے بعد ایک پینل مشرف صاحب کی تقریر کوزیربحث لائے گا۔ مجھے اس پینل میں شامل ہونا ہے۔ میں تیار نہ تھا مگر PTVکو حکم آیا ہوا تھا۔ تعمیل ضروری تھی۔ چلا گیا۔ جان کی امان پاتے ہوئے اس پروگرام میں عرض کیا تو صرف اتنا کہ ایوب خان کے زمانے سے اب تک کوئی وردی والا دیدہ ور اس قوم کو ڈنڈے کے زور پر بھی صراطِ مستقیم پر نہیں چلاپایا۔
مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے پر بڑے خلوص کے ساتھ اپنے تحفظات بیان کرنے والے کالم نگار مگر ان دنوں ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے تھے۔ ہر طرف ”دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو“ والا ماحول بنا ہوا تھا اور یہ ماحول نام نہاد مہذب اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے مفکرین انگریزی اخبارات کے لئے لکھے مضامین کے ذریعے بڑے جذبے کے ساتھ پیدا کررہے تھے۔ دِق ہوکر ایک دن میں نے لکھ ہی ڈالا کہ مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کی حمایت میں لکھے مضامین درحقیقت عرضیاں ہیں جو مختلف شعبوں کے ماہرین بنے ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“ والا پیغام پہنچانے کو لکھ رہے ہیں۔
وردی پہنے ہوئے کسی دیدہ ور کی تلاش گزشتہ ایک سال سے اب انگریزی ہی نہیں اُردو اخبارات کے لئے لکھے کالموں اور مضامین میں بھی بڑی شدومد سے ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب تو 24/7بھی آگئے ہیں۔ وہاں بیٹھے ہیں عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات اور ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد رکھنے والے مفکرینِ کرام۔ دیدہ ور کا انتظار کرتے فضا انہوں نے یہ بنادی ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے پلے کچھ نہیں رہا۔ اس کا دائرہ کار محدود ہورہا ہے۔ بنیادی مسائل جن کاتعلق پاکستان کے خارجہ اور سلامتی امور سے ہے، ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کے یہ وزیر اعظم قابل ہی نہیں رہا۔ وزیر اعظم کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اگر اسے بے بس بنادیا گیا ہے تو پھر پریشانی کیوں۔ فیصلے اگر وہی لوگ کررہے ہیں جو قومی غیرت وحمیت سے جڑے معاملات کو پوری طرح سمجھتے ہیں تو ہمارے لکھاریوں، عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات اور مفکرینِ کرام کو مطمئن ہوکر بیٹھ جانا چاہیے۔ چین انہیں مگر اک پل بھی نصیب ہوتا نظر نہیں آرہا۔
وزیر اعظم کے عہدے کی تحقیر سے لطف اٹھانے کے لئے اب ان کا موضوع ہے نئے مشیر برائے قومی سلامتی کی تعیناتی۔ سرتاج عزیز کی اس حوالے سے فراغت پر یہ لکھاری، عقل کل بنے اینکرخواتین وحضرات اور مفکرینِ کرام بہت شاداں ہیں۔ زیادہ لطف یہ سوچ کربھی اٹھارہے ہیں کہ سرتاج عزیز وزارتِ خارجہ تک محدود ہوکر اب طارق فاطمی کی پھرتیاں بھگتیں گے۔
ناصر جنجوعہ کی تعیناتی پرمسرور ہوتے مفکرین سے میری التجا ہے تو صرف اتنی کہ وہ کسی رپورٹر کی مہارت مستعارلے کر ذرایہ تو پتہ چلالیں کہ نئے مشیر برائے امور قومی سلامتی کی تعیناتی دراصل کس طرح ہوئی ہے۔ بس اتناعرض کئے دیتا ہوں کہ یہ تعیناتی اس انداز میں نہیں ہوئی جس طرح اسے بیان کیا جارہا ہے۔ اس تعیناتی کے چند مضمرات بھی ہیں۔
نیا مشیر قومی سلامتی وزیر اعظم کے دفترمیں بیٹھا کرے گا۔ اس کا دفتر قائم ہوجانے کے بعد کئی مہینوں سے Comaمیں پڑی قومی سلامتی کمیٹی متحرک ہوجائے گی۔ اس کمیٹی میں سیاسی اور عسکری قیادت انفرادی طورپر نہیں ادارتی حوالوں سے موجود ہے۔ فیصلے اب صرف دو افراد یعنی وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان مشاورت کے ذریعے ہی نہیں بلکہ وسیع تر حوالوں سے بنائے ایک ادارے کے ذریعے ہوا کریں گے۔ پاکستان کی ریاست کو Institutionalذرائع کے ذریعے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ سازی کے قابل بنانا ہے تو قومی سلامتی کونسل کا ایک حوالے سے احیاءاچھی خبر ہے۔ اسے ”آدمی نے کتے کو کاٹ لیا“ والی ”خبر“ بناکر صرف ایک ادارے، یعنی منتخب وزیر اعظم کا دفتر، کی تحقیر کے لئے استعمال کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔