لاہور (معین اظہر سے) محکمہ خزانہ پنجاب نے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی لاہور کو 18 ارب 36 کروڑ کا قرضہ بغیر کسی معاہدے کے جاری کرنے پر مستقبل میں کمپنی کو فنڈز کا اجراءروکنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اتنی بڑی رقم بغیر کسی معاہدے کے قرضہ دی گئی تاہم محکمہ خزانہ کی بار بار درخواست کے باوجود قرضہ کی رقم کا معاہدہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نہیں کر رہی ہے اسلئے وزیراعلیٰ پنجاب مداخلت کریں اور قرضہ کا معاہدہ کئے بغیر ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو مزید رقم نہ دی جائے جب تک وہ معاہدہ قرض کی واپسی کا شیڈول طے نہ کرلے ۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے ترکی کی فرم کے ساتھ معاہدہ کے تحت اسکو ادائیگی کی جارہی ہے۔ چند ماہ پہلے کمپنی نے قرضہ کو گرانٹ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور سیکرٹری بلدیات نے اسکی حمایت کی تھی لیکن محکمہ خزانہ نے دباﺅ کے باوجود قرضہ کو گرانٹ میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے اس بارے میں موقف کی بار بار درخواست کی گئی سوالات بھی بھیجے لیکن موقف نہیں دیا گیا۔ کمپنی خود تو قرضہ کا حساب نہیں دے رہی شہریوں پر قرضہ واپسی کا بوجھ ڈالنے کیلئے صفائی ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اتنے بڑے قرضہ کی تحقیقات کی جائے تو اربوں روپے کے فنڈز کے ہیر پھیر ، غیر قانونی ، ایڈاونس ادائیگیوں کا سیکنڈل سامنے آسکتا ہے یہ واحد قرضہ ہو گا جس کو دینے کیلئے کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی 2010-11ءمیں بنائی گئی اور اسے لاہور کی صفائی کی صورتحال بہتر کرنے کا کام دیا گیا تھا اس کمپنی نے ترکی کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا تھامحکمہ خزانہ پنجاب سے کمپنی کو چلانے کیلئے 2015 تک 18 ارب 36 کروڑ کا قرضہ دیاتاہم یہ قرضہ بغیر کسی معاہدے کے دیا گیا ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے 10 جنوری 2014ءکو ایک اپنی ڈیمانڈ محکمہ بلدیات کو بھجوائی تھی جو کافی عرصہ تک محکمہ بلدیات میں پڑی رہی اس ڈیمانڈ میں کمپنی نے موقف اپنایا تھا کہ انکے ذمہ جو قرضہ ہے اس کو گرانٹ میں تبدیل کردیا جائے تاہم بعد ازاں سیاسی شخصیت کی سفارش پر محکمہ بلدیات نے اس کی حمایت میں فائل بھجوائی جس میں موقف اختیار کیا کہ چونکہ کمپنی ریونیو اکٹھا نہیں کر تی ہے اور نہ ہی اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کوئی چارجز وصول کر سکے نہ ہی یہ سروس ڈیلیوری آپریشن کے نام پر پیسے اکٹھے کر سکتی ہے۔ محکمہ خزانہ پنجاب نے قرضہ کو گرانٹ میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے موقف کی بنیاد پر قرضہ کو گرانٹ میں تبدیل کرنے کی منظوری نہیں دی ہے جس کے بعد فنانس ڈیپارٹمنٹ نے متعدد بارویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو درخواست کی کہ وہ قرضہ کے معاہدے پردستخط کرلیں مگر کمپنی نے جواب بھی نہیں دیا ہے۔ جس پر محکمہ خزانہ نے وزیراعلیٰ کو ایک رپورٹ بھجوائی جس میں کہا گیا ہے کہ اب ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو پیسے دینے بند کر دئیے جائیں۔ محکمہ خزانہ نے اپنے موقف میں وزیر اعلی کو کہا ہے کہ قرضہ کی واپسی کیلئے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو ریونیو اکٹھا کرنے کا اختیار دیا جائے تاہم یہ اختیار اس وقت تک ہو گا جب تک قرضہ کی واپسی مکمل نہیں ہو جاتی جس پر ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے صفائی ٹیکس لگانے کی سفارشات محکمہ بلدیات کو بھجوا ءدی ہیں جس کو بوجھ لاہور کے شہریوں پر ڈالا جائے گا تاہم ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے میڈیا ایڈوائزر خاور سے ایک ہفتہ سے اس قرضہ کے بارے میں موقف کیلئے کہا جارہا ہے موقف فراہم نہیں کیا گیا ہے جبکہ کمپنی کے متعدد عہدے داروں سے ترکی کی کمپنی کی انوسٹمنٹ ، اور اس کو دی جانے والی گزشتہ پانچ سال کی رقوم کی ڈیٹا مانگا گیا ہے لیکن تمام عہدیدار وعدہ کرکے فون سننا بند کر دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کمپنی میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسی وجہ سے سیکرٹری خزانہ پنجاب کو ان بے ضابطگیوں کو چیک کرنے پر بعض سیاسی افراد نے پنجاب سے تبدیل کروا دیا ہے۔
ویسٹ کمپنی/ قرضہ