افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان تمام دہشتگردوں کیخلاف نہیں لڑ سکتا تو ہم بھی اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر عبد اللہ نے مزیدکہا کہ انہیں شک ہے کہ پاکستان امن کے عمل میں کردار ادا نہیں کر رہا کیونکہ نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کیخلاف نہیں لڑ سکتا۔
افغانستان میں طالبان اشرف غنی انتظامیہ کےلئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے اکثر علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ دنوں طالبان نے قندوز پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ پاکستان نے افغان حکومت کی درخواست پر افغان طالبان کے ساتھ اسے مذاکرات کی میز بٹھا دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کی یہ مخلصانہ کوشش تھی۔ جسے ملا عمر کے انتقال کی خبر جاری کراکے سبوتاژ کر دیا گیا۔ پاکستان یقناً افغانستان میں جا کر طالبان کےخلاف نہیں لڑ سکتا۔ یہی وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے۔ پاکستان میں موجود ان دہشتگردوں کو افغانستان میں دہشتگردی میں ملوث ہیں‘ کو حکومت کی قطعی حمایت حاصل نہیں۔ یہ دہشتگرد پاکستان کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں ۔ پاکستان میں اچھے اور برے طالبان میں تفریق نہیں ہو رہی جبکہ افغان انتظامیہ نے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث فضل اللہ جیسے لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ گزشتہ روزافغانستان سے جنوبی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر کی گئی فائرنگ سے ایف سی کے سات اہلکار شہید ہو گئے۔ حملہ آ ور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے جنہوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ ایسے حملے اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ افغان سرزمین پاکستان کےخلاف حملوں کیلئے افغان انتظامیہ کی مرضی سے استعمال ہو رہی ہے۔دہشتگردوں کے بارڈر کے آرپار کارروائیوں کو سرحد کا مستقل تعین کر کے روکا جا سکتا ہے۔ افغانستان ڈیورٹڈ لائن کو تسلیم کر لے تو اس پر باڑ لگائی جا سکتی ہے یا دیوار تعمیر کر کے مشکوک افراد کی آمدروفت روکی جا سکتی ہے۔
سرحد پار فائرنگ سے 7 اہلکار شہید عبداللہ عبداللہ کی غیر ضروری بیان بازی
Oct 29, 2015