داعش بڑا خطرہ ،جنرل راحیل نے نشاندہی کردی

جنرل راحیل شریف نے Royal Institute for defence security لندن میں تقریر کرتے ہوئے کہا”ہم پاکستان پر داعش کا سایہ بھی پڑنے نہیں دینگے۔اس لئے کہ داعش القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک، دہشتگرد گروہ بندی ہے۔ اسلام آباد میں بعض لوگ ہیں جو داعش سے ہمدردی رکھتے ہیں۔یہ لوگ خطرناک سوچ کے حامل ہیں۔ ایسی انتہا پسند تنظیموں سے نبرد آزما ہونا القاعدہ نیٹ ورک سے زیادہ مشکل ہے جنہوں نے امریکہ میں9/11کا حشر برپا کر دیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ عالمی امن کو بڑا خطرہ داعش سے ہی ہے ۔ پہلے عالمی خطرات القاعدہ سے تھے اب اس سے بڑھ کر داعش سے ہیں“۔ جنرل راحیل کے خیال میں یہ عالمی خطرہ ٹل سکتا ہے اگر افغان طالبان اور گورنمنٹ افغانستان کے درمیان صلح وامن کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔ جنرل نے اپنے خطاب میں خدشات کا اظہار کیا ” اگر ایسا نہ ہوا تو طالبان داعش سے اتحاد کر لیں گے ۔ اس لئے افغان طالبان کو تصفیہ میز پر لانا بہت ضروری ہے ۔ حکومت افغانستان اور طالبان کے مابین تصفیہ عالمی امن کیلئے بہت ضروری ہے“ 

جنرل راحیل نےمزید کہا ”حکومت پاکستان نے طالبان اور افغان حکمرانوں کے درمیان جولائی میں امن کانفرنس کا اہتمام اسلام آباد میں کیا تھا ۔ لیکن ملاعمر کی خبر نے یہ کوشش ناکام کردی“(نیوز اکتوبر5) میونخ(جرمنی) میں خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے باور کرایا ”تحریک طالبان پاکستان کو بھارتی را ایجنسی اورN.D.Sافغانستان سے مسلح اور ٹرینڈ کرکے پاکستان بھیج رہے ہیں ۔ بلوچ لبریشن آرمی اور لبریشن فرنٹ کے ٹریننگ کیمپ افغانستان میں ہیں۔ کراچی میں دہشتگرد گروپوں کو بھارتی را ایجنسی فنڈنگ اور ہتھیار فراہم کررہی ہے۔ بھارت نے افغانستان میں پاﺅں جماکر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے اقدام کئے ہیں ۔ یہ اقدام بھارت کیلئے دانشمند نہ نہیں ہیں ۔ اسکا بھارت کو بہت نقصان ہو گا ۔ علاقائی محرکات بتا رہے ہیں کہ افغانستان میں جو آگ لگی ہے اور وہاں سے جو پاکستان پر دہشتگردوں کے ذریعے تباہی مچائی جارہی ہے یہ آگ ایک دن بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی“ (نیوز۔اکتوبر۔6)
لگتا ہے جنرل راحیل شریف جنگی علوم کے علاوہ تاریخ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کی افغان وارز کو بھی سٹڈی کیا ہوگا جہاں انگریزوں نے افغانستان فتح کرنے کیلئے باربار حملے کئے لیکن ناکام رہے۔ بیسویں صدی میں روسی فوجوں کا انجام بھی دیکھا ہو گا اور اب امریکیوں کی پسپائی بھی دیکھ رہے ہونگے ۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے ایک بار اعلان کیا تھا ”ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان سپر پاورز کا قبرستان بنتا رہا ہے“۔چند دن ہوئے موصوف وائیٹ ہاﺅس میں کہنے پر مجبور ہوئے ”ہمیں احساس ہوا ہے کہ طاقت اور دولت سے قوموں کو محکوم نہیں بنایا جاسکتا“
جب انسان اپنی نفسانی خواہشات کےلئے کسی کا خون کرتا ہے وہ سزا سے بچ بھی جائے لیکن احساس گناہ سے نہیں بچ سکتا ۔ عراق نے نہ کوئی سرحدی خلاف ورزی کی تھی نہ ان سے امریکہ یایورپ کی سلامتی کو خطرہ تھا ۔ نیٹو افواج نے اس ملک کا تورا بورا کر دیا ۔ 15لاکھ بے گناہ عراقی مار دیئے ۔ آج امریکی حکمران کہنے پر مجبور ہیں کہ عراق پر حملہ بڑی غلطی تھی ۔سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے تو اس پر معافی مانگی ہے۔ کرنل قذافی سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہ تھا ۔ قذافی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ بیدردی سے اسے قتل کیا۔ نعش کی بے حرمتی کی گئی ۔ آج ان دونوں ممالک میں کشت وخون ہو رہا ہے یہاں کبھی امن وامان تھا ۔
امریکہ ویت نام پر حملہ آور ہوا ۔ کئی سال جنگ ہوتی رہی ۔ لاکھوں وائیٹ کانگ اور پچاس ہزار امریکی مارے گئے ۔ آخر امریکی افواج کو وہاں سے پسپائی اختیار کرنی پڑی ۔ غصہ میں آکر امریکہ نے اپنے ہی اتحادی ملک کمبوڈیا پر حملہ کر دیا ۔ جھوٹا الزام لگاتے ہوئے کہ کمبوڈیا کی سرزمین سے گوریلے ویتنام داخل ہوتے رہے ہیں ۔ بعد میں یہ جھوٹا الزام امریکی دانشوروں نے بھی ثابت کر دیا ۔ کمبوڈیا ملک کے ٹکڑے کر دیئے گئے وہاں لاکھوں انسان مارے گئے آج یہی الزام افغان حکمرانوں کے ذریعے پاکستان پر لگایا جارہا ہے کہ قندوز پر حملہ میں طالبان کے ساتھ پاکستانی حملہ آور بھی شریک تھے ۔ آخر کار امریکی اور نیٹو فوجیں ناکام ہوکر افغانستان سے پسپا ہوئی ہیں ۔ یورپی اور امریکی دانشور شور مچا رہے ہیں کہ افغانی اعلیٰ افسر، فوجی اور پولیس بزدل اور کرپٹ ہیں ۔ جب طالبان حملہ آور ہوتے ہیں وہ یا تو بھاگ جاتے ہیں یا سرینڈر کرتے ہیں ۔ افغانستان میں اب تقریباً 10ہزار امریکی فوجی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو افواج کی فضائیہ افغان فوج کی کمک کو آتی ہے لیکن سنگلاخ پہاڑوں میں طالبان گوریلوں کو مارنا آسان کام نہیں ہے ۔
ملا منصور افغانی طالبان کا سربراہ مقرر ہوا ہے ۔ جس نے اعلان کیا ” جنگ جاری رہے گی اور اس وقت تک مذاکرات نہیں ہونگے جب تک غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل نہ جائیں “ ۔ طالبان کو اس وقت افغانستان کے ستر فیصد علاقہ پر کنٹرول حاصل ہے ۔ انہوں نے افغانستان کے آٹھ شمالی صوبوں میں بھی قدم جما لئے ہیں ۔ وہ اس لئے کہ وہاں ازبکستان کی تحریک آزادی ایم آئی یو نے طالبان سے اتحاد کر لیا ہے ۔
جنرل مرزا سلم بیگ لکھتے ہیں”امریکہ اور ان کے اتحادی افغانستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ روس، چین، پاکستان اور ایران کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون کا توڑ کیا جاسکے۔غیر مستحکم افغانستان پاکستان کی سلامتی اور مفادات کیلئے خطرناک ہے ۔ پاکستانی افواج سوات سے بلوچستان تک کے سرحدی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ وہ وہاں سے اس وقت تک نہیں نکل سکتیں جب تک افغانستان میں امن نہ ہو۔ ہماری دو محاذوں پر منقسم فوجی قوت ہی وہ کمزوری ہے جس نے بھارت کو شہ دی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے ۔ اسی طرح شمال مغرب میں پاک افغان سرحد عبور کرکے ہمارے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے“۔
فی الحال طالبان کا داعش سے اتحاد نہیں ہوا ۔ داعش شام، عراق، لیبیا، صومالیہ، نائیجیریا، مالی اور یمن میں بہت ایکٹو ہو چکی ہے۔ یہاں سے وہ یورپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ داعش کے خلاف نیٹو کی فضائی قوت بے کار ثابت ہوئی ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے ۔ مغربی دانشوروں کا خیال ہے کہ داعش کو صرف افغانی طالبان ہی لگام دے سکتے ہیں ۔ اگر بقول جنرل راحیل شریف افغان حکومت مغربی اور طاقتوں کی ہٹ دھرمی اور جنگجوآنہ سوچ طالبان کو تصفیہ، مصالحتی میز پر نہ لاسکی اور طالبان نے داعش سے اتحاد کر لیا تو اس آگ سے بھارت بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔
خبریں ہیں کہ بھارت افغانستان میں داعش کو ٹرینڈ اور مسلح کرکے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے بھیج رہا ہے ۔ داعش نے کراچی میں ایسی وارداتوں کی ذمہ واری قبول کی ہے ۔ بھارتی وزیر دفاع اعلان کرتے ہیں”بھارتی افواج کی حربی صلاحیت کو چانچنے کیلئے ہمیں پاکستان کے ساتھ کم ازکم ایک جنگ لڑنا ہوگی۔ بھارتی سیناپتی نے پاکستان سے شارٹ وارکی تیاری کا حکم دے دیا ہے ۔ ہوسکتا ہے بھارتی عقاب اپنے اتحادیوں سے ملکر پاکستان کےخلاف آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس یا چوتھی بار حیدر آباد پر فوج کشی کریں ۔ اس سے شارٹ وار کے علاوہ ایٹمی جنگ بھی ہو سکتی ہے جسے دیکھ کر اوتاروں، دیوتاﺅں کی روحیں بھی کانپ جائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن