تکیہ کلام‘ بھئی واہ !!! اورکچے آلو

گزشتہ کئی دنوں سے وطنِ عزیز میں ملک کی ترقی و خوشحالی کو ماپنے کے ایک انڈیکیٹرایک سبزی یعنی آلو کی قیمت کم ہونے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ کسی بھی شخص کو اپنی زندگی کی بقاء کیلئے روٹی ، کپڑا اور مکان تصور ہوتا ہے اس ضمن میں آلو(خوراک) یعنی روٹی کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ ماہ رمضان میں آلو کی قیمت 70روپے کلو تک بھی گئی تھی مگر آج کل حکومتی ذرائع خوشی سے بھرپور دعویٰ کر رہے ہیں کہ آلو 20روپے کلو ہو چکے ہیں۔ مارکیٹ سے پتا کی جائے تو بہر حال 30روپے کلو تک بڑے شہر میں آلو دستیاب ہیں۔ واضح رہے کہ خوراک کی کوئی بھی چیز ہو بڑے شہر میں اس کی قیمت زیادہ ہی ہوتی ہے ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ آلو کچے نہیں کھائے جاتے اس ضمن میں کچھ دلچسپ وضاحتیں بہت ضروری ہیں ۔مثلاً ٹماٹر ، بینگن ، کھیرا اور ٹنڈے جن کو ہم سبزیا ں تصور کرتے ہیں مگر زراعت کی ڈکشنری میں ان کا شمار پھلوں میں ہوتا ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو ان میں سے ٹماٹر اور کھیرا ایسے پھل ہیں جن کو ہم کچا بھی کھا سکتے ہیں مگر آلو نہیں ۔ قارئین آلودنیا میں سب سے زیا دہ پیدا اور کھائی جانے والی سبزی ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آلو کو Adjustableسبزی کہا جاتا ہے ۔ اس کی وضاحت بڑی سادہ مگر اہم ہے ۔ آپ آلو کو کسی بھی سبزی میں ڈال کر پکا سکتے ہیں ۔ حتیٰ کہ آلو بڑے ، چھوٹے گوشت کے علاوہ شوربے والے چکن میں ڈال کر بھی پکا یا جا سکتا ہے مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ آلو کچا نہیں کھایا جا سکتا ۔ اب اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کچے آلو کا اتنا ذکر کیوں کیا جا رہا ہے؟مان لیا کہ آلو سستے ہو چکے ہیں مگر آلو پکانے کیلئے گیس ،بجلی یا لکڑیاں جلانی پڑیں گی تو ہی ہنڈیا گرم ہوگی اور یہ سب چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ اسی طرح آلو پکاتے ہوئے گھی ڈالنا بہت ضروری ہے اور گھی کے مسائل قومی ہیں ۔ اول تو خالص گھی ،واضح رہے دیسی گھی کی بات نہیں کی جارہی ،میسر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بہت مہنگا ہے ۔ اسی طرح کوئی بھی ہنڈیا پکاتے وقت اور مرچ بھی درکار ہوتی ہے ۔ یہاں پر ایک مزید دلچسپ وضاحت ضروری ہے کہ مرچ کی جنس سبزی نہیں پھل ہے ۔قصہ مختصر کے آلو کی ہنڈیا تیار ہونے کے بعد سستی نہیں رہتی اور کچے آلو کھائے نہیں جا سکتے ۔
نوائے وقت ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر اور کالم نگار فضل حسین اعوان کے سامنے کوئی کالم رکھا جائے، ایک پیرا رکھا جائے حتیٰ کہ کوئی شعر بھی سنا دیا جائے تو وہ بے ساختہ آگے سے بولتے ہیں ’’بھئی واہ‘‘ ۔میرے ساتھ کچھ یوں ہوا کہ میں نے ایک کالم لکھا ان کے سامنے رکھا جسے چیک کرنے کے بعد بھرپور اور سنجیدہ طریقے سے میرے کالم کے بارے میں کہا ’’بھئی واہ‘‘۔ میں خوشی سے پھولا نہ سمایا کہ نوائے وقت جیسے اخبار کے کالم نگار اور ایڈیٹوریل ٹیم کے مستقل اور سینئر ممبر نے میرے کالم کی تعریف کر دی۔ میں نے یونیورسٹی آکر اپنے شعبہ کے ایک ملازم جو کہ میرا بہترین ’’بیلی دوست‘‘ ہے اور میں اسے بیلی کے نام سے ہی پکارتا ہوں کو بلایا اور اس کو بہترین قسم کا کھانا کھلایا ۔ یعنی اس کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا ۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ دفتر گیا تو ایک تقریباً خود ساختہ شاعر نے ٹرکوں پر لکھا جانے والا ایک شعر سنایا اعوان صاحب کام میں مگن تھے۔ مگر اس کے باوجود شعر پورا ہونے سے پہلے ہی داد داغ دی ’’بھئی واہ‘‘۔ میرے قدرے شرمندگی سے پسینے چھوٹ گئے ‘ مجھے اس دن پتا چلا کہ ’’بھئی واہ‘‘ تو ان کا ادبی تکیہ کلام ہے ۔ میں گھر واپس آیا اپنے بیلی (دوست) کو فی الفور بلایا ۔ وہ بظاہر خوش تھا کہ شاید آج پھر میرے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام ہے مگر میں نے غصے اور افسوس کے ساتھ اس کو کہا کہ اس دن جو میں نے تجھے کھانا کھلایا وہ میرے کالم کی تعریف حکومتی دعوئوں جیسی تھی‘ بلکہ اعوان صاحب کا تکیہ کلام تھا ’’بھئی واہ‘‘۔ اسلئے آج میرا موڈ ٹھیک کرنے کیلئے تو مجھے کھانا کھلائے گا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ڈاکٹر صاحب ’’بھئی واہ‘‘ اگر یہ تکیہ کلام نکلا ہے نہ کہ تعریف تو اب جرمانے کے طور پر کھانا میں کھلائو؟ میں نے کہا ‘ ہاں بالکل ۔ قدرے سہمے ہوئے انداز میں بولا آپ کی مصنوعی تعریف اعوان صاحب نے کی اور جرمانہ میں بھروں ۔ مگر مجھے کچھ کہنے کی اجازت دی جائے۔ میں نے کہا کہ ہاں بولو۔ کہنے لگا اس جرمانے پر مجھے بھی صرف اتنا کہنا ہے ’’بھئی واہ‘‘۔
دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا پیمانہ اس ملک کی کرنسی کی قدر ہوتی ہے ۔ جیسا کہ جب بھی چین کی ترقی کی بات ہوتی ہے تو چین والے بخوشی کہتے ہیں کہ اب چین کی کرنسی YUANکی قدرڈالر کے مقابلے میں مسلسل بہتر ہو رہی ہے اس وقت عالمی منڈی میں تقریباً چھ عدد YUANکے عوض ایک ڈالر مل جاتا ہے جو کہ 1995میں 8.5 YUAN ہوتی تھی یعنی ایک ڈالر حاصل کرنے کیلئے ساڑھے آٹھ (8.5 ) YUANدینے پڑتے تھے ۔اب آپ آئیں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر (VALUE) پر یہ مشرف کے دور میں62 روپے ہوتی تھی جو اس وقت بڑھ کر 100روپے سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یہ معیشت کا بہت بنیادی اور ٹھوس پیمانہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے کہ نہیں ۔ سادہ الفاظ میں کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر کو معیشت کی نبض کہا جاتا ہے ۔
کالم کے درمیان میں ’’بھئی واہ ‘‘ تکیہ کلام والاذاتی قصہ سنانے کا بڑا واضح‘ بنیادی اور منطقی مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک سبزی یعنی آلو سستا ہونے کو ملکی ترقی کی ایک علامت indicator) (قرار دینا بہت ہی عجیب لگ رہا ہے کہ آج منہ سے بے ساختہ نکل رہا ہے ’’بھئی واہ‘‘۔ کیونکہ آلو کچے نہیں کھائے جا سکتے ۔

ای پیپر دی نیشن