کمرہ جماعت میں استاد کا برتاؤا ور طرزتکلم

گزشتہ سے پیوستہ
اساتذہ کھلے ذہن کے مالک نہ ہوتوطلبہ کے مسائل کو ان کے نکتہ نظر سے نہیں دیکھ پاتے ہیں جس کی وجہ سے موثرپیغام رسانی اور تال میل پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔طلبہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے یا پھر ان کی باتوں کی سماعت میں عدم برداشت کا مظاہر ہ کر بیٹھتے ہیں۔طلبہ کے متنوع ومختلف نظریات کو قبول کرنے میں مزاحمت سے کام لیتے ہیںیا پھر تامل سے کام لیتے ہیںجس کی وجہ سے پیغام رسانی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور گفتگو تاثیر سے عاری ہوجاتی ہے۔طلبہ سے گفتگو کے وقت ان کی باتوں پر دھیان اور توجہ نہیں دیتے ہیں ان کی باتوں کو بے دلی سے سنتے ہیں جس کی وجہ سے بچے سوچتے ہیں کہ ان کی گفتگو استاد کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔بچوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ استاد سے بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ اپنے کمرئہ جماعت کے طرزعمل ،باہمی تعامل اور گفتگو میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔کمرئہ جماعت کی سرگرمیوں کو سہل اور موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ کی کسی بھی ناکامی پر ناپسندیدہ ،دل آزار اور حوصلہ شکن تبصرے سے گریز کریں۔حوصلہ شکن منفی فقرے طلبہ کی عزت نفس کو مجروح ،حوصلوں کو پست کردیتے ہیں جس کے بر ے اثرات اکتساب پر بھی مرتب ہوتے ہیں-طلبہ کے مسائل کی ہمددرانہ سماعت کو ممکن بنائیں۔کئی موقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ نے طلبہ کے اظہار کویا تودرخور اعتنا ئ￿ نہیں سمجھا یا پھر ان کی سماعت میں حقیقی دلچسپی نہیں دکھائی۔طلبہ کو برے اور خراب القاب اور ناموں سے پکارنے سے اجتناب ضروری ہے۔دوسرے بچوں کے سامنے ان پر تنقید کرنے سے باز رہیں۔ استاد کا انداز تخاطب اور عمل تحقیر آمیز نہ ہو۔بچوں کی عزت نفس کا ہرحال لحاظ رکھا جائے۔استاد کا تحکمانہ اور تکلیف دہ برتاؤ استاد شاگرد کے رشتے پر آری کا کام کرتا ہے-طلبہ کے سامنے اپنے ساتھی اساتذہ اور دیگر لوگوں کے متعلق شخصی فقرے بازی سے گریز کریں۔بچے عواقب و نتائج سے بے خبر رہتے ہیں اور کمرئہ جماعت میں سنے گئے جملوں کو دیگر اساتذہ یا لوگوں کے سامنے دہراتے ہیں جس کی وجہ سے حالات دھماکو اور ابتر ہوجاتے ہیں۔تعلیمی ماحول کو سخت نقصان پہنچتا ہے-درس و تدریس میں جوش و ولولہ ،غلطیوں کا اعتراف،خوش مزاجی،سنجیدگی اور متانت،حس مزاح وغیرہ اظہارکے ایسے وسیلے ہیں جو طلبہ کے جذبے ،شوق اور اشتیاق کو فروغ دیتے ہیں۔استاد کے یہ اوصاف اسے طلبہ میں پسندیدہ اور مقبول بنادیتے ہیں- کمرہ جماعت میںوقت پر پہنچے۔ہر حال میں تاخیر سے بچیں۔اگر حالات آپ کو کبھی کمرئہ جماعت میں وقت پر حاضری سے باز بھی رکھیں تب طلبہ کو تاخیر سے پہنچنے کی اطلاع دیں اور انھیں اپنی حاضری تک کسی سرگرمی میں مشغول رہنے کی واضح ہدایات بھی پہنچادیں۔ طلبہ کو ان کے نام لے کر مخاطب کرنے سے استاد اور شاگرد میں شخصی روابط مستحکم ہوتے ہیں۔ استاد جب طلبہ کو ان کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کوئی پیغام یا ہدایت باہم پہنچاتا ہے تب طلبہ اس ہدایت کو شخصی پیغام سے تعبیر کرتے ہوئے توجہ دیتے ہیں۔اساتذہ ہمیشہ تما م طلبہ کے نام یا د رکھے اور ان کو ان کے صحیح نام سے پکاریں۔بیتے دن کی تمام ناگوار باتوں ،یادوں اور واقعات کو پس پشت ڈال کر ہر نئے دن کا جوش ولولے اور خوشی سے استقبال کریں۔ہر دن کو گزشتہ دن سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ہمیشہ اپنے تدریسی اور انتظامی امور میں ہی الجھے نہ رہیں۔طلبہ سے گفت و شنید کے لئے وقت نکالیںتاکہ طلبہ میں اعتماد کی فضائ￿ بحال کی جا سکے اور طلبہ محسوس کریں کہ ان کا استاد ان کی ضرورت کے وقت ہمیشہ موجو د رہتا ہے۔
استاد کے تدریسی تجربات ،برتاؤ،انداز گفتگو وغیرہ پر طلبہ کے اکتساب کا دارو مدار ہوتا ہے۔ دراصل تعلیم استاد کے تدریسی تجربات اور طلبہ کے اکتسابی تجربات کا دوسرا نام ہے۔درس و تدریس کی تاثیر اور اکتساب کی کامیابی کا استاد کی شخصیت پر انحصارہوتا ہے۔تدریس اس وقت ہی موثر اور کامیاب ہوتی ہے جب استاد طلبہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔پیشہ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں نام اور کمال حاصل کرنے کے لئے خود کو علم کے سمندر میں غرقاب کرنا ضروری ہے۔اپنے پیشے سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ ہی درس و تدریس میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔ایک دیانت دار اور فرض شناس استاد درس و تدریس کو محض ایک نوکر ی یا کام سمجھ کر انجام نہیں دیتا بلکہ درس و تدریس اس کی زندگی کا مقصد اور شعار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی غیر افادیت میں پیشہ سے اساتذہ کی عدم دلچسپی بھی ایک اہم وجہ ہے۔تدریس کو دلچسپ بنانے میں استاد کی دل کش شخصیت کا بڑا دخل ہوتاہے۔اساتذہ کے لئے طلبہ کی تعلیم و تربیت سے پہلے اپنی تعلیم و تربیت اور تنظیم ذات پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

ای پیپر دی نیشن