یہ بات ناقابل یقین ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایسا بھی لمحہ آیا جب وقت کی حکومت کے رویہ اور پالیسی کے باعث سعودی عرب بھی پاکستان سے ناراض ہوا اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو سعودی عرب کی حکومت نے سرکاری دورہ کی دعوت دیکر اسکو امن کا پیامبر قرار دیا، تاہم آج ہمارے تعلقات نہ صرف خوشگوار بلکہ برادرانہ اور نہایت اہم اور اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ ہمارے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف وہاں نہایت اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ گو ان کی وہاں موجودگی کے باعث ہمارے ہاں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ انکے منصب اور وہاں جانے سے لیکر ادا کئے جانے والے کردار پر بھی انگلی اٹھائی گئی۔ یہ تنقید سیاسی سطح پر بھی ہوئی اور سابق فوجی کرداروں نے بھی سرعام کی۔
ریاستوں کے درمیانی تعلقات کبھی ایک ہی سطح پر برقرار نہیں رہا کرتے۔ ان میں اتار چڑھائو آتا جاتا رہتا ہے اور آج کی دنیا میں خارجہ پالیسی نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ معاشی استحکام کے حصول کیلئے تبدیل کی جاتی ہے۔ ترکی نے بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اردن مصر نے یہ کام بعد میں کیا۔ ہم ابھی اس موضوع پر سوچنا بھی نہیں چاہتے اور اسکی بہت سی بنیادی وجوہات ہیں۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جسکے ساتھ ہم شروع دن سے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی یکطرفہ کوشش میں مصروف عمل رہے ہیں۔ امریکہ اپنی پالیسی پر کار بند ہے مگر جب کبھی پاکستان کو اس کی ضرورت پڑی اور بالخصوص جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ نے ہماری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ہم ماضی میں امریکہ سے اپنی سلامتی خود مختاری، استحکام اور فوجی امداد کے طالب رہے امریکہ ہمیں پی ایل 480 کے تحت گندم پندرہ روز کے اندر اندر دے دیتا، گویا ہم بھارتی جارحیت کا مقابلہ گندم کی گولیوں اور توپ شکن گولیوں سے کرتے اور بھارت امریکہ ہی سے حاصل کردہ اسلحہ بارود کے ذریعہ ہمارے درپے رہا۔ یہ تو ماضی کی ایک مثال ہے۔ 1965 اور 1971 میں امریکہ کے ساتھ ہمارے فوجی معاہدوں کے باوجود امریکہ نے ہمیں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر مدد کرنے سے انکار کر دیا یہ امریکہ کے ساتھ ہماری دوستی ہی تھی کہ وہ ہمیں بھارت کے ساتھ ملکر چین کے خلاف جنگ میں شریک ہونے پر زور ڈالتا رہا۔ اگر ہم ایسا کر لیتے تو آج ہماری داستان بطور ریاست تاریخ کے حوالوں میں تو ضرور مل جاتی اور بھارتی قیادت کی روز اول کی خواہش کہ پاکستان بطور ریاست ناکام نامراد رہے ضرور پوری ہو جاتی۔
امریکی وزیر خارجہ گزشتہ دنوں 4 گھنٹے کے دورہ پر پاکستان کو امریکی احسانات کی داستان سنانے آئے تھے ۔ ان کے صدر ٹرمپ کی خطہ کے بارے میں نئی پالیسی پر ہمارے شدید تحفظات اور اعتراضات کے حوالے سے بھی وضاحت اور ہماری پالیسی میں موجود کمی بیشی پر بھی اظہار خیال کرنا ان کے سرکاری ایجنڈے کا حصہ تھا ۔ امریکی امداد خواہ کھربوں روپے ہو امریکہ کے بارے پاکستانی عوام کی رائے امریکی حکومت کو ہر صورت معلوم ہی ہے۔ اعتماد کا فقدان بھی ان کے علم میں ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی امداد پاکستان کو ملتی رہے گی مگر اس کا بوجھ اور قیمت بہت ہی بھاری ہے اور شاید اسی بھاری پن کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ کے گیت گاتا ہے۔ اصول تو یہ ہے کہ جس کا کھائو اس کے گیت گائو، مگر ایسا یہاں کیونکر نہیں ہوتا اس کی بدولت ہماری حکومتیں تو عوام کو بتانے سے ہمیشہ انکاری رہتی ہیں مگر عوام کا فیصلہ ایک دن یا صرف 4 گھنٹوں میں تبدیل نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی ہوا ہے۔
امریکہ سیکرٹری آف سٹیٹ نے حکومت پاکستان کو 75 افراد پر مشتمل دہشت گردوں یا مطلوب افراد کی ایک فہرست بھی دی ہے۔ اس لسٹ میں کسی ایک پاکستانی فرد کا نام تک نہیں۔ حد ہے کہ حافظ سعید صاحب یا سید صلاح الدین صاحب کا بھی نہیں۔ جن کے نام ہیں یہ سب امریکہ کے یا تو تربیت یافتہ ہیں یا ان کے ساتھی اوردوست رہے ہیں۔ امریکہ کا تو صدام حسین بھی دوست تھا اس کو پھانسی دے دی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ صرف اپنے دوستوں سے ہی ناراض ہوتا ہے دشمنوں میں بھی ان ہی کو تبدیل کرتا ہے جن کے ساتھ زیادہ محبت ہو۔ افغانستان میں ان کے دوستوں کی تعداد پچھلے سولہ برس میں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وزیرخارجہ نے بگرام ائیر بیس جو کہ امریکہ کے زیر تصرف ہے ۔ یوں اشرف غنی کو بلا کر ایک بینکر میں چھپ کر ملاقات کی ہے ی محسوس ہوتا ہے کہ 16 برس کی فوجی کارروائی پر کھربوں ڈالر خرچ کرکے بھی اگر صورتحال پر کنٹرول حاصل نہیں ہو سکتا تو پھر چند ہزار فوجیوں کے اضافہ کے باعث کیسے ممکن ہے۔ 45 فیصد علاقہ افغان طالبان کے پاس ہے۔ امن مذاکرات بھی انہی کے ساتھ کرنا پڑ رہے ہیں۔ جن کے ساتھ مذاکرات کئے جاتے ہیں‘ ان کی شرائط بھی تسلیم کی جاتی ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ مستقبل میں بھی جنگ پشتو اور فارسی بولنے والوں کے ساتھ ہو اور وہ اسی خطرہ کو بھانپ نہ رہے ہوں۔اگر معاملہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا افغانستان کی صورتحال سے منسلک کر دیا گیا ہے تو پاکستان کو بھی افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہو گی۔گو اس بار سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک حکمت عملی کے تحت امریکی حکام کے ساتھ اکٹھی ملاقات کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عسکری قیادت کی تجویز تھی یہ بات بھی بعض جگہ پر کہی جا رہی ہے کہ وزیراعظم کی خواہش کے مطابق جنرل باجوہ نے ایسا کیا ہے۔ ان دونوں میں ایک بات ہی درست ہوگی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ہمارے دانشور جو خارجہ پالیسی میں فوج کو شریک ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ان کیلئے واضح اشارے موجود ہیں اور وہ جو کہتے ہیں کہ سب کچھ عسکری قیادت کرتی ہے‘ ان کیلئے بھی اپنی معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو اندرونی صورتحال کے بارے بات ہوئی مگر بیرونی طورپر بھی نہایت واضح پیغام دیا گیا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے اور ریاستی ادارے باہم مل کر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
اگر امریکہ بھارت کو افغانستان میں حتمی طورپر کوئی کردار دینا چاہتا ہے تو ہماری قیادت نے کہہ دیا کہ بھارت کی نہ تو بالادستی قبول ہے اور نہ ہی افغانستان میں کوئی کردار۔ بھارت کی ایک مدت سے یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو افغانستان میں کھلی مداخلت کا راستہ مل جائے تاکہ پاکستان کیلئے وہ مزید مشکلات پیدا کرے، اگرچہ اشرف غنی بھارت کی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں مگر شاید ان کو اس کے نتائج کا بخوبی اندازہ نہیں۔ وہ تو طبعی عمر پوری کرکے چلے جائیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سابق صدر حامد کرزئی کی طرح وہ بھی داعش کیلئے امریکی امداد اور پالیسی پر ایک روز لب کشائی کریں اور وہ دن ضرور آئے گا جب ان کو مسئلہ کی سنگینی کا احساس ہوگا۔ اشرف غنی تو اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ طالبان کو اب روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو رہی اور روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا اثر مشرق وسطیٰ میں ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور ایران کے تعلقات کی نوعیت بھی امریکی حکام تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایران بھی ایک اہم ملک ہے اور اس نے طالبان اور ان کی قیادت کو اپنے پاس رکھنے میں کوئی تامل نہ رکھا تھا۔ روس اور ایران اور چین اور ایران کے تعلقات بھی معاشی ضرورتوں کے تحت مزید فروغ پارہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ یا افغان حکومت کس طرح اس جنگ میں کامیابی حاصل کر سکے گی۔ کیا مزید 16 برس امریکہ اس خطہ میں بدامنی جاری رکھنا چاہتا ہے۔
بھارت کبھی چین کا مقابلہ کرکے خطہ میں امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے گا۔ اس سوال کا جواب تو بچہ بچہ بآسانی دے سکتا ہے۔ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسی کبھی کامیاب نہ ہوگی کیونکہ چین دنیا بھر میں اپنی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے رہا ہے اور ابھی چند روز قبل چینی قیادت نے اپنے صدر پر جس طرح بھرپور اعتماد کیا ہے وہ قابل تقلید ہے۔ چین بھارت کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی معاشی سرگرمیوں کو نہ صرف وسعت دے رہا ہے بلکہ پاکستان کے ذریعہ نئے راستوں کو مستحکم کرنے کی بھی بھرپور تیاری کر چکا ہے۔ پاکستان نے چین کو دنیا سے ملانے کیلئے ماضی میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ بھارت، امریکہ کیلئے ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔
امریکی وزیرخارجہ کے دورۂ بھارت کے دوران بھارتی وزیرخارجہ نے پاکستان کے خلاف حسب معمول ہرزہ سرائی کی‘ لیکن اس کا اس بار کوئی خاطرخواہ نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ یہ درست ہے کہ امریکی وزیرخارجہ نے دہشت گردی کے پاکستان پر اثرات کا جائزہ ضرور ان کے سامنے رکھا مگر بھارتی ریاستی دہشت گردی پر لب کشائی نہیں کی۔ امریکہ کی خواہشات تو بے شمار ہو سکتی ہیں‘ مگر ہمارے اندیشے‘ فکر کا بھی کوئی خیال نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت خود دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔ یہ پاکستان میں ہو یا مقبوضہ کشمیر میں۔ امریکہ کو مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ دینا چاہئے اور معاملہ حق خودارادیت کا ہے۔ یہ دنیا کا وعدہ ہے۔ یہ امریکہ کا وعدہ ہے اور یہ حق ہے ان کشمیریوں کا جو 70 بر سے بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ نہ ہی ہم توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں کہ بھارت کو امریکہ ڈرون طیارے فراہم کرے۔ یہ علاقہ میں امن کی خواہشات کو خراب کرنے کی ایک بھرپور کوشش ہے۔ نیوکلیئر طاقتوں میں امن ہی رہنا چاہئے مگر مسائل بھی حل ہونے چاہئیں۔ امریکہ اگر بھارت کو بالادست بنانے کا ارادہ ختم کر دے اور ہمارے درمیان دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کروا دے تو اس علاقہ میں موجود غربت‘ افلاس‘ صحت اور تعلیم کی کمی کو پورا کرنے‘ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور قیام امن کی خواہش کو پورا کرنے میں مدد دے تو 70 سال سے حل طلب مسئلہ بھی ختم ہوگا۔ دہشت گردی سے بھی نجات ملے گی اور خطہ میں معیار زندگی بہتر ہو سکے گا‘ تاہم سب باتوں کیساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 4 گھنٹوں میں سیاست اور خارجہ امور کی صلاحیت کام مکمل نہیں کر سکتی۔ امریکہ کو پاکستانی عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات بھی کرنا ہونگے۔