خبر ہے کہ احمد نورانی پر تشدد کے واقعے کے بعد وزیر داخلہ احسن اقبال کو ایک بار پھر غصہ آ گیا ہے۔ انہیں آخری بار غصہ آیا تھا جب پنجاب رینجرز نے ازخود کاروائی کرتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت کی عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور انہیں بھی داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ تب انہوں نے "فیصلہ" سنا دیا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بننے دی جائیگی۔ اسی غصے کی حالت میں جب انہوں نے بطور وزیر داخلہ تحقیقات کا حکم دیا تھا تو امید کی جا رہی تھی کہ وزارت داخلہ کے "ماتحت" کام کرنیوالی پنجاب رینجرز کی فورس کے مقامی کمانڈر کی جواب طلبی کی جائیگی۔اتنے دن گزر گئے اور اب معلوم ہوا ہے کہ وزیر داخلہ موصوف مقامی کمانڈرصاحب کو یاددہانی کے خطوط لکھ رہے ہیں کہ جناب اپنی پوزیشن واضح کریں۔معلوم ہوا ہے کہ وزارت داخلہ کی تحقیقات پر جھاڑو پھیرتے ہوئے پنجاب رینجرز کے کمانڈر نے بتا دیا ہے کہ پنجاب رینجرز خود ہی اپنی تحقیقات کر رہی ہے اور اس" محکمانہ تحقیق " کا جو بھی نتیجہ جب بھی آئیگاتو وزارت داخلہ کو بتا دیا جائیگا۔اس وقت تک کیلئے وزیر داخلہ کو پنجاب رینجرز کے دفتر میں بلا کر ایک "گارڈ آف آنر" کا لالی پاپ دیا گیا۔ احتساب عدالت کے گیٹ پر تعینات گارڈ نے جو "ڈس آنر" کیا تھا اس کامعاوضہ شاید اتنا ہی بنتا تھا۔ وزیر موصوف نے سوچا یہ "گارڈ آف آنر" سرکاری ٹی وی پر براہ راست چلے گا تو "عزت بحال ہو جائیگی"۔مگر شومئی قسمت کہ پنجاب رینجرز نے اب کی بار سرکاری ٹی وی کو ہی داخل نہ ہونے دیا۔جنگل میں مور ناچا مگر کس نے دیکھا۔
احسن اقبال سے پہلے بھی ایک وزیر چودھری نثار علی خان ہوتے تھے جو گھنٹوں پر محیط" مختصر ترین "پریس کانفرنس کرتے تھے۔ انہیں بھی مان اور گمان تھا کہ وہ ملک کے اس وقت تک کے وزیراعظم نواز شریف کے منہ پر حق گوئی کرتے تھے جو شاید ان کیلئے ایک بہادری کی عمدہ مثال تھی۔ذرا سوچیئے! میاں صاحب کا منہ اور اس پر چودھری نثار کی "حق گوئی"۔آئین سے سنگین غداری کے ملزم جنرل مشرف کو جنرل راحیل شریف کی آنکھ کے اشارے پر لندن بھجواتے وقت انکی "حق گوئی" سب کو یاد ہے۔ اسکے علاوہ پشاور سے اسلام آباد کے درمیان موٹروے پولیس اہلکاروں کی فوجی کمانڈوز کے ہاتھوں پٹائی پر پریس کانفرنس میں تحقیقات کا اعلان آج بھی لوگوں کو یاد ہے ، وہ تحقیقات جو آج تک نجانے شروع بھی ہوئی کہ نہیں۔
تو جناب بات ہو رہی تھی موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو صحافی احمد نورانی پر ہونے والے تشددپر غصہ آنے کی۔ خبر کے مطابق ایٹمی ملک پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایٹمی ملک پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا ہے کہ صحافی احمد نورانی پر حملہ حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔اللہ کرے یہ حکومت اس ٹیسٹ میں بھی ہمارے ایٹمی دھماکوں کی طرح کامیاب ہو۔اللہ تعالیٰ احمد نورانی جیسے نڈر اور بے باک صحافی کو تندرست کرے تو امید ہے کہ یہ حکومت اقتدار کے باقی نو مہینوں میں کچھ پیدا کردیگی۔کیونکہ اس سے پہلے چار سال کے دوران جتنے بھی ایسے ٹیسٹوں میں نواز حکومت بیٹھتی رہی اس میں فیل ہوتی رہی بلکہ اس کا سرکاری نتیجہ تو یہ خود ہی روک لیتی تھی۔ سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کی عدالتی کمیشن رپورٹ والے ٹیسٹ میں تو یہ حکومت مکمل طور پر فیل ہو گئی ہے۔ایک تو انور ظہیر جمالی جیسے کمیشن سربراہان کی بے نتیجہ رپورٹ اور اوپر سے سابق حکمران نواز شریف کی کمزوردل حکومت جو کئی سال سے اس رپورٹ کو بھی جاری کرنے سے گھبرا رہی ہے جو چوروں کی طرح لیک کردی گئی تھی۔ اس لیک شدہ رپورٹ کو بھی جس نے پڑھا ہے وہ چودھری نثار اور اب احسن اقبال کی بڑھکوں اور چہرے پر افسوس اور غصے کے تاثرات کو ایک سیاسی مجبوری کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ اس رپورٹ میں ہماری حکومت اور عدلیہ کی بے بسی کی کہانی جس طرح پیش ہے اس پر تو حامد میر جیسے سخت جان صحافی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بار بار احکامات کے باوجود سپریم کورٹ کے عدالتی کمیشن کو حامد میر پر حملے کی مکمل جیو فنسنگ رپورٹ نہیں فراہم کی گئی۔ یہ جیو فنسنگ رپورٹ ان ٹیلی فون کالوں کا مکمل نقشہ ہوتا ہے جو جائے وقوعہ پر اس وقت موجود شہری یا شاید جن یا ملزمان ایک دوسرے کو کر رہے ہوتے ہیں۔ تو جناب اس رپورٹ کو وزیر داخلہ احسن اقبال نے ضرور پڑھا ہو گا۔ اسکے باوجود نہ جانے انہیں کس نئے ٹیسٹ کیس کی تلاش ہے۔یا تو وہ محض بڑھکوں کے ذریعے اپنے "خفیہ مخالفین "پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔اگر مقصد محض دباؤ ہی بڑھانا ہے توپھر احسن اقبال صاحب اپنی وزارت کے خفیہ خانوں میں دھول چاٹتی صحافی حیات اللہ خان سے متعلق کمیشن رپورٹ اور حامد میر کمیشن رپورٹ کو باقاعدہ طور پر جاری کر دیں۔
اگر وہ یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر اپنے پیش رو کی طرح عوام کو اور انکے آنکھ اور کان صحافیوں کو بیوقوف بنانا چھوڑ دیں۔اس حکومت کی اوقات تو اتنی بھی نہیں کہ کسی کیس میں کسی جائے وقوعہ کی جیو فنسنگ رپورٹ ہی خفیہ ایجنسیوں سے نکلوا لیں او رچلے ہیں ایک نیا ٹیسٹ کیس بنانے اور اپنے بیان کی خبریں چھپوانے۔حامد میر کمیشن کی بزدلانہ اور بے نتیجہ رپورٹ کے بعد اب تو صحافیوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر عدالتی کمیشن کا مطالبہ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں ایسے ہی روئیے پر اپنی ڈوبتی ساکھ کو تنکے کا سہارا دینے کیلئے ان مقدمات میں اب دوبارہ جو حکومت سے رپورٹیں مانگی جارہی ہیں اسکی اصلیت بھی جلد سامنے آ جائیگی۔دوچارہفتے سماعتیں ہوں گی ،کچھ ترازو کھڑکیں گے اور جب سودا بِک جائیگا تو صبح کے بھولے انصاف کے گاہک تھک ہار کر شام ڈھلے بدھو بنے گھر کو لوٹ جائینگے۔ اس دوران کوئی بڑا واقعہ ہو گیا تو سو بسم اللہ۔ صحافیوں پر حملے اگر حکومت کیلئے واقعی ٹیسٹ کیس بنتے ہیں تو لاپتہ افراد کے مقدمات ہماری اعلیٰ عدلیہ کیلئے اب ایک ٹیسٹ کیس ہیں۔مگر شاید دونوں ٹیسٹ کیسوں کے کردار اور ان کی کہانی ایک ہیں اوروہ یہ کہ وقت گزارو،اپنی اپنی مدت پوری کرو،جان بچاؤ،پنشن پکڑو اور چلتے بنو۔سمجھ نہیں آتا کہ شکوہ اداروں ’’کی بہادری‘‘ کا کیا جائے یا چند دوسرے اداروں کی بزدلی کا۔سول سوسائٹی اور میڈیا سسٹم یعنی نظام کے استحکام کیلئے آواز اٹھاتا ہے تو خود نشانے پر آجاتا ہے۔ایک ٹانگ قبر میں لٹکائے اور ایک ٹانگ اقتدار کی جنگ میں اٹکائے ’’سرپھروں‘‘ کے چند حواری سیاستدان اور خود ساختہ صحافی حضرات کو نہ تو کبھی جان کا خطرہ ہوتا ہے،نہ ہی ان پر ایسے حملے ہوتے ہیں بلکہ ایسے حواری سیاستدانوں اور خود ساختہ صحافیوں کی شعلہ بیانیوں کے باعث سسٹم اور نظام کی بات کرنے والے صحافی حضرات کی جان کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ایسے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ دوسری طرف ان حواری سیاستدانوں اور صحافیوں کی سکیورٹی اتنی سخت ہے کہ خدانخواستہ انکے بارے میں غلط سوچ رکھنے والے کو اس سوچ پر ہی "قابو "کر لیا جاتا ہے۔حامد میر اور احمد نورانی کے ٹیسٹ کیس تو بہت بڑے ہیں۔ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کیس راقم پر حملے کا ہے۔چوبیس ستمبر کو اہل خانہ کے ساتھ بہارہ کہو میں چلتی گاڑی پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے جو حملہ کیا اور ونڈ سکرین توڑی، اس میں پولیس نے تو حیران کن پیش رفت دکھائی ہے مگر معاملہ جیو فنسنگ رپورٹ پر آکر رک گیا ہے۔عام حالات میں ایک ہفتے میں یہ رپورٹ دستیاب ہو جاتی ہے جو تین ہفتے کے باوجود نہیں دی گئی۔شاید اس کیس میں ملزمان حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں۔ایک کوشش کر لیں۔