ٹریفک وارڈنز کی عدم غفلت ہی ٹریفک جام کراتی ہے
چنگ چی ڈرائیوروں کی اکثریت بغیر لائسنس رکشے چلا رہے ہیں
ٹریفک وارڈن چالانوں کے علاوہ ڈیوٹی سے غائب پائے جاتے ہیں
چوراہوں اور شاہراہوں پر ٹریفک کی لمبی قطاریں
سی ٹی او اپنے دفتر سے باہر نکل کر ٹریفک درست کریں
آٹھ بازاروں کا شہر فیصل آباد پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے باوجود اربن ٹرانسپورٹ سے محروم شہر ہے اور اربن ٹرانسپورٹ کی تمام تر ذمہ داری چنگ چی رکشاؤں کے سپرد کر رکھی ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے فیصل آباد کے شہریوں کو اربن ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی غرض سے ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کو کروڑوں روپے کی مالیت کی 26بسیں فراہم کی تھیں ان بسوں کی فراہمی کے ساتھ ہی فیصل آباد میں اربن ویگن ٹرانسپورٹ جو بڑی کامیابی سے چل رہی تھی اربن ویگن ٹرانسپورٹ کا منصوبہ فیصل آباد کے ساتھ کمشنر تسنیم نورانی نے بنایا تھا۔ نجی اربن بس سروس کی اجارہ داری قائم کرنے کی غرض سے اربن ویگن ٹرانسپورٹ کا بیڑہ غرق کر دیا گیا اور حیران کن بات ہے کہ سبسڈی پر جس نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بسوں کے روٹ دیئے گئے ان میں ایک روٹ بھی پیپلزکالونی اور ڈھڈی والا کا جاری نہیں کیا گیا جبکہ اربن بس سروس کے روٹ بھی نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان کی صوابدید پر جاری کئے گئے۔ اس وقت جو اربن بس سروس کے نام پر نئی بسیں فراہم کی گئی تھیں ان میں چھ سے زیادہ بسیں تو گراؤنڈ کر دی گئی ہیں اور بارہ سے زیادہ بسیں اربن روٹ پر چلانے کی بجائے دوسرے روٹ پر چلائی جا رہی ہیں جبکہ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری اس تمام صورت حال پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور اربن بس سروس کے نام پر فیصل آباد کے چند روٹ پر جو بسیں چلتی نظر آتی ہیں ان میں اوورچارجنگ کے ساتھ من پسند کے کرائے وصول کئے جا رہے ہیں۔ فیصل آباد میں روٹ نمبر1 اور 2 جو کہ غلام محمد آباد اور ڈھڈی والا کے روٹ ہیں ان روٹوں پر نہ پہلے کوئی بس چلائی گئی اور نہ ہی اب کوئی اربن بس نظر آتی ہے۔ جس کا فیصل آباد کے ڈویژنل کمشنر کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ رہی بات سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی تو وہ مالان ٹرانسپورٹ کے ایک کارندہ سے زیادہ کوئی درجہ نہیں رکھتے اور ان کا اٹھایا ہوا ہر اقدام مالکان ٹرانسپورٹ کے مالکان کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے۔ دوسری طرف فیصل آباد میں ٹریفک کی صورت حال اس قدر بدترین ہے کہ کوئی چوک ایسا نہیں ہے جہاں ٹریفک کا اژدھام دکھائی نہ دے اور جام ٹریفک کے مناظر فیصل آباد کی تمام معروف شاہراہوںپر نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی تمام تر ذمہ داری اندرون شہر ٹریفک پولیس اور ٹریفک وارڈنز پر عائد ہوتی ہے لیکن اوقات صبح کے ہوں یا شام کے ہمیں توٹریفک وارڈن کسی چوک، کسی شاہراہ پر اپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے کسی چوک کے کونے میں خوش گپی میں مصروف یا موبائل فون پر گیم کھیلتے، باتیں کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فیصل آباد کے ٹریفک چیف کی طرف سے جو چالان ٹارگٹ دیا جاتا ہے اس ٹارگٹ کے ہدف کو پورا کرنا ہی اپنے فرائض منصبی میں شامل کرتے ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور حال سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی نے جن مقاصد کے حصول کے لئے ٹریفک پولیس کی جگہ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹریفک وارڈن کا نظام قائم کیا تھا وہ تو کہیں نظر نہیں آتا اور پورے شہر میں ٹریفک یوں چل رہی ہے جیسے ٹریفک قوانین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کے تحت ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر کوئی گاڑی، موٹرسائیکل، رکشہ اور کار سڑک پر نہیں چلائی جا سکتی لیکن عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری اربن ایریاز میں ٹریفک وارڈن اور رورل ایریا میں ٹریفک پولیس کی ہے۔ ٹریفک عدالت عالیہ کے اس حکم پر عمل درآمد اپنی آمدن میں اضافہ کو سامنے رکھتے ہوئے کراتی ہے۔ فیصل آباد کے معروف چوکوں میں ریلوے روڈ کا بشیر نظامی چوک، جی ٹی ایس چوک، گمٹی چوک، کچہری چوک، نڑوالا چوک، سوساں چوک مدینہ ٹاؤن موڑ، عبداللہ پور چوک اور جھنگ بازار چوک ہیں لیکن چوک پر بھی ٹریفک وارڈن اپنے فرائض ادا کرتے نظر نہیں آتے اور ان کے بعض اوقات اختیارات سے تجاوز کرنے سے ہنگامہ آرائی اور مارپیٹ کے افسوسناک واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ ان دنوں فیصل آباد میں ٹریفک وارڈن نے بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف بڑے زوروشور سے مہم چلائی ہوئی ہے مگر بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزی دیکھتے ہوئے ملک گیر سطح پر ڈرائیونگ لائسنس کی پابندی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا کے طریقہ کار کو بھی شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ڈرائیور پر اپنی اور دوسری بہت سی جانوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے چنانچہ دنیا بھر میں ڈرائیونگ لائسنس کو انتہائی اہم دستاویزات میں ایک مانا جاتا ہے جس کے اجراء کی بڑی کڑی شرائط ہیں مگر ہمارے ہاں ڈرائیونگ لائسنس کو محض ایک فرضی کارروائی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اول تو ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھتا کوئی نہیں، اگر بنوانا بھی پڑے تو کوئی معیار نہیں۔ فیصل آباد میں جس قدر چنگ چی رکشہ چل رہے ہیں اور ان چنگ چی رکشوں کو اکثریت وہ چلاتی ہے جو لائسنس حاصل کرنے کی عمر تک نہیں پہنچے بلکہ اگر نابالغ بچے بھی چنگ چی چلا رہے ہیں۔ ٹریفک وارڈن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر لائسنس کسی کو گاڑی شاہراہ پر لانے کی اجازت نہ دے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور ٹریفک وارڈن تو جب ڈیوٹی پر آتے ہیں تو محض رسم پوری کرنے آتے ہیں اور ٹریفک کو کنٹرول کرنا تو اپنی ذمہ داری ہی قرار نہیں دیتے۔ اس پر چوکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک کا جو اژدھام نظر آتا ہے اور ٹریفک جام ہوتی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری ٹریفک وارڈن پر عائد ہوتی ہے جو صرف چالان کو اولیت دیتا ہے ٹریفک جام ہے تو جائے بھاڑ میں!!