آجکل ویسے تو پورے پاکستان میں ناجائز تجاوزات گرائے جانے کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے اور ہونا بھی چاہیئے اگر کسی بھی سیاسی پارٹی نے ملک کے کسی بھی شہر میں محض سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو ناجائز کھوکھے ،دکانیں یا مکانات بھی بنا کر دیئے ہیں تو ان کے خلاف عمل کسی طور بھی خلاف قانون نہیں۔۔۔مگر اس سلسلے میں اگر کوئی قدم کچھ اس انداز میں اُٹھایا جائے کہ جس سے بھینس بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے تو پھر یقینا ایک اچھی بات ہوگی ۔ملحقہ ادارے پورے ملک میں ایکدم اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں مگر اس بات کا خیال کریں کہ گیہوں کے ساتھ گھن پسنے کے مصداق پورے ملک میں بڑی مچھلیوں کے ساتھ غریب پتھارے دار اور دکاندار بھی متاثر ہورہے ہیں جو کہ ایک تکلیف دہ عمل اس لحاظ سے ہے کہ وہ اپنا گھر ہی روز مرہ کی آمدنی پر چلاتے ہیں ہاں بڑے بڑے پیشہ ور قابضین کے خلاف یہ عمل یقینا قابل ستائش ہے جو کہ سیاسی پشت پناہی کی بنیاد پر یہ کام برسوں سے کرتے اور اپنی اور اپنے بڑوں کی جیبیں بھرتے چلے آرہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کے لئے ملحقہ اداروں نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ بھی قابل تنقید ہے اور دوسری جانب وہاں کے رہائشی ملحقہ اداروں کی جانب سے مستقل ٹائم دیئے جانے کے باوجود جس طرح مالکانہ حقوق( جن کے پاس مالکانہ حقوق کا دستاویزی ثبوت نہیں) کے لئے لڑ رہے ہیں وہ بھی درست قدم نہیں۔آج ہم حکومت وقت یعنی تبدیلی سرکار کے لئے ان مسائل کے چند قابل حل تجویز کرینگے کے جن کے ذریعے نا صرف موجودہ سرکاری رہائش گاہوں ،ناجائز پتھاروں دوکانوں بلکہ مستقبل کے لئے بھی سرکاری رہائش گاہوں کے خالی کرانے کا آسان حل نکل سکتا ہے۔جہاں تک پاکستان کوارٹرز کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اُن لوگوں سے کہ جن کہ پاس مالکانہ حقوق کے کاغذات نہیں ہیں مگر وہ سرکاری ملازم ہیں تو ان سے ایک ایگریمنٹ کر لیا جائے کہ دوران مدت ان کی تنخواہوں سے ایک معقول رقم بطور قسط ماہانہ بنیادوں پر کٹوتی ہوتی رہے گی اور اس کے ساتھ جہاں اس وقت حکومت لاکھوں ملازمتیں دینے کے لئے پر عزم ہے تو اگر ممکن ہو پاکستان کوارٹرز میں رہائش پذیر بے روزگار اور مستحق خواتین و حضرات دونوں کو کوئی سرکاری ملازمت دے کر اور ان کے لئے بھی ماہانہ قسط والی بنیادوں پر مالکانہ حقوق دینے کی تجویز کو اگر حکومت وقت اپنے پلان کا ہی حصہ بنالے تو کسی غریب اور بے قصور کو اپنی رہائش سے بیدخل ہو کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے نجات ممکن ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ہی اُن سرکاری ملازمین سے جو سرکاری عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں، اُن سے یہ بھی ایگریمنٹ کرلیا جائے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر پر ان کے بقایا جات تب ہی دیئے جائیں گے جب وہ یا تو سرکاری رہائش خالی کردیں گے یا پھر پہلے سے طے شدہ قیمت ادا کر کے اس کے مالکانہ حقوق حاصل کرلیں گے۔اس تجویز سے یہ اثر ہوگا کہ ہر وہ سرکاری ملازم جو کسی بھی سرکاری رہائش میں رہ رہا ہے پہلے سے اس انداز میں اپنی پلاننگ کرسکے گا کہ کس طرح وہ اُسی رہائش کو حاصل کرسکتا ہے یا پھر دوران ملازمت وہ کسی اور رہائش کا اپنے لئے کوئی بندوبست کر سکتا ہے اور اگر اس کی کوئی اولاد بھی اُسی ادارے میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے یا حکومتی پالیسی کے مطابق اس کی کسی ایک اولاد کو وہ سرکاری ملازمت باپ یا ماں کی ریٹائرمنٹ پر دی جاتی ہے تو بھی اس کی تنخواہ سے بقایا جات کی کٹوتی کا عمل جاری و ساری رہ کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب جس طرح طاقت کے بل پر پورے ملک میں ناجائز پلاٹوں پر تعمیر کی گئی دکانوں کو گرا کر روزانہ کی بنیاد پر کما کر گھر چلانے والوں کے خاندان کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے وہ عمل بھی قابل مذمت ہے اور ہم نئے پاکستا ن میں یقینا کسی کو بے روزگار نہیں دیکھنا چاہیںگے۔ اس کے لئے مناسب یہ ہوگا کہ ان دکانداروںسے بات کرکے ان سے بھی ماہانہ بنیادوں پر کوئی قسط باندھی جائے تاکہ وہ بھی ریگولرائز ہو کر ان ہی دکانداروں کو مالکانہ حقوق پر مل سکیں اور یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ جب ان کا ذریعہ آمدنی جاری رہے گا اس سے دونوں فریقین کو یقینا مثبت نتائج حاصل ہوں گے کہ ایک جانب حکومت کو مستقل بنیادوں پر وصولی کا عمل خزانے میں اضافے کا باعث بن کر اس کی موجودہ مشکلات میں آسانی کا سبب بنے گا تو دوسری جانب وہ دکاندار بھی اپنے
روزگار کو جاری رکھتے ہوئے اسی دکان کے جائز مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے راستے پر بھی چل پڑے گا اور اس کے زیر کفالت افراد بھی کسی مشکل میں پڑنے کے بجائے زندگی کا سفر آسانی سے آگے بڑھا سکیں گے۔یہ ایسی تجاویز ہیں کہ اگر عمران خان اور پی ٹی آئی اس پر عمل کر جاتی ہے تو نا صرف ایک جانب عمران خان کے لوگوں کو گھر اور کاروبار دینے کا خواب بھی پور ا ہوسکے گا بلکہ دوسری جانب وہ تمام لو گ خود بخود پی ٹی آئی کا حصہ بن کر مستقبل میں خان صاحب کی ووٹنگ پاور میں اضافے کا باعث بن سکیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ صرف کراچی ہی نہیں پورے پاکستان میں ناجائز طور پر بنائے گئے گھروں میں رہنے والوں سے بھی کچھ ایسی ہی ڈیل کر لی جائے تو بہتر ہے کہ آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے۔۔۔کیونکہ عمران خان یقینا غریب کے بجائے غربت کو مٹانے کے فارمولے پر عمل کرنا زیادہ پسند کرینگے کیونکہ اس ملک کے عوام کی وہ آخری اُمید ہیں۔
پاکستان کوارٹرز اور دیگرناجائز تجاوزات کا ممکنہ حل
Oct 29, 2018