لیکن ڈاکٹر صاحب سے شرف ملاقات تو دور کی بات ان کے دیدار کا موقع بھی راقم کو ان کی تصاویر کے سوا کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ ایک غائبانہ سی عقیدت ڈاکٹر صاحب سے البتہ ہو چکی تھی۔ معاشرے میں ان کی بے پناہ مقبولیت اور مدح سرائی پر اشتیاق بھی بہت تھا کہ کبھی تو اس عظیم شخصیت کے دیدار اور معاشرے میں ان کی توقیر و پذیرائی کی کیفیت آنکھوں دیکھنے کا موقع ملے۔ وغیرہ کرنا خدا کا کہ 1968ءکے کسی مہینے میں راقم کو یہ موقع نصیب ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ کھیلوں کی غالباً افتتاحی تقریب تھی جس میں ڈاکٹر نذیر احمد مہمان خصوصی تھے۔ اہتمام اس کا کالج کے پروقار تاریخی ”اوول“ گرا¶نڈ میں کیا گیا تھا۔ تقریب اس لحاظ سے پورے جوش و خروش اور عظیم الشان انداز میں منعقد کی گئی کہ سالانہ کھیلوں کا ازسر نو اجراءکچھ برسوں کے تعطل کے بعد ہو رہا تھا۔
(راقم کو البتہ ٹھیک سے یہ یاد نہیں کہ سالانہ کھیلوں میں تعطل 1965ءکی جنگ کے بعد آیا تھا یا اس سے قبل) خیر! رنگا رنگ جھنڈوں وغیرہ سے ”اوول“ کی سجاوٹ و تزئین گویا جشن کا سما پیش کر رہی تھی۔ گرا¶نڈ کی مشرقی‘ شمالی اور مغربی حدوں کے ساتھ ساتھ گھاس کے ڈھلوان پشتوں پر حاضرین براجمان ہو چکے تھے جن میں کالج کے طالب علموں کے علاوہ فیکلٹی ممبران بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں اس خصوصی تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کئے گئے ”اولڈ راوئینز کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جن کی نشست کے عوض سے "Old Ravians" کے بینر تلے خصوصی انکلوژر مختص کیا گیا تھا۔ ان سابق طالب علموں میں اس وقت کے بڑے بڑے حکومتی ‘ انتظامی‘ عدالتی اور عسکری عہدوں پر فائز شخصیات کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ایسے افراد بھی شامل تھے جن کی اکثریت لامحالہ کسی نہ کسی دور میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شاگرد رہ چکی تھی۔ مردوں اور خواتین پر مشتمل یہ ”سابق شاگرد“ اس روز اپنے محبوب استاد مکرم سے گہری عقیدت کی وجہ سے کھینچے چلے آئے تھے ”تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے!“ (تاہم یاد رہے کہ اس دور میں کالج میں طالبات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوا کرتی تھی!)
قارئین قصہ مختصر یہ کہ میدان تیار تھا اور حاضرین ‘ مہمان خصوصی کے منتظر! بالآخر ‘ انتظار ختم ہوا اور اس کے ساتھ ہی راقم کی ڈاکٹر صاحب کے دیدار کی دیرینہ تمنا بھی پوری ہوئی۔ ڈاکٹر نذیر احمد سائیکل پر سوار کالج کے جنوب مشرقی کونے پر واقع صدر پھاٹک (Main Gate) سے داخل ہو کر سائیکل سے اترے ‘ پھاٹک کے برابر بائیں ہاتھ پر ”اوول“ کی باڑ تراش کر بنائے گئے داخلی راستے گرا¶نڈ میں قدم رنجہ فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب پر نظر پڑنا تھی کہ حاضرین بالخصوص ”اولڈ راوئینز“ کے انکلوژر میں گویا برقی لہر دوڑ گئی۔ سب لوگ تعظیماً اپنے محبوب استاد کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ میدان تالیوں سے گونج اٹھا۔ راقم کو وہ مسحور کن منظر آج بھی بخوبی یاد ہے کہ کرشمالی شخصیت کے حامل ڈاکٹر نذیر احمد اپنے روایتی ڈھیلے ڈھالے سفید کرتے پاجامے اور گہرے خاکی رنگ کی واسکٹ میں ملبوس ‘ بڑھے ہوئے سرمئی بال ، سائیکل کا ہینڈل تھامے گرا¶نڈ کی حد بندی کے ساتھ ساتھ حاضرین کے سامنے سے پیدل گزر کر مہمان خصوصی کے چبوترے کی طرف بڑھے۔ چبوترے کی تنصیب‘ گورنمنٹ کالج کے طرہ امتیاز ”گمٹی دار منارے“ کی جانب
گرا¶نڈ کی شمالی با¶نڈری کے درمیان کی گئی تھی۔ گویا صدر پھاٹک سے چبوترے تک خاصا فاصلہ تھا تالیوں کا ایک طوفان تھا ڈاکٹر صاحب کا ایک ہاتھ سائیکل کے ہینڈل پر‘ دوسرے ہاتھ کے اشارے اور سر کی عمودی جنبش سے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ تالیوں کی رسید دیتے آگے بڑھتے گئے۔ چبوترے کے عقب میں سائیکل کھڑا کر کے نشست تک پہنچے۔ استقبالیہ کمیٹی والے بچھے چلے جاتے تھے۔ تالیاں تھیں کہ رکنے کا نام نہ لیتی تھیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ تالیاں بجانے میں پیش پیش Old Ravians کے انکلوژر والے ”وی آئی پی“ تھے‘ کیا شایان شان استقبال تھا اپنے محبوب‘ محترم‘ ہر دلعزیز سابق استاد مکرم کا تالیوں کی فلک شگاف گونج بھی یوں لگے کہ چہار اکناف میں بھاٹی دروازے ‘ سیکرٹریٹ ‘ ٹولنٹن مارکیٹ اور انار کلی بازار تک سنائی دے رہی ہو گی !! سابق شاگردان سلیم‘ کئی منٹوں تک اپنے استاد محترم کی خدمت میں نذرانہ عقیدت و احترام پیش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ بالآخر ڈاکٹر صاحب کو نشست سے اٹھ کر مشفقانہ انداز میں ہاتھ کے اشارے سے اپنے پروانوں کو شانتی اور بیٹھنے کی تلقین کرنا پڑی اور یوں یہ سلسل تھما۔ قصہ مختصر یہ کہ وارفتگی ‘ عقیدت‘ احترام والہانہ کا ایسا مظاہرہ شاید ہی کسی اور ادارے میں دیکھا گیا ہو! قارئین اسے اولڈ راوئینز کے جذبہ استقبال کی بدولت طاری اس روح پرور ماحول کا اثر کہہ لیجئے کہ راقم کو کالج میں اس وقت زیر تعلیم نوخیز طالب علموں کی آنکھوں میں بھی ڈکٹر صاحب کے لئے فرط عقیدت کی چمک دکھائی دی جو ڈاکٹر صاحب کی پراوصاف شخصیت سے شاید پوری واقف بھی نہ ہوں گے۔ بہرکیف تقریب کی کارروائی مکمل ہوئی۔ تاہم راقم کے نزدیک اس کا نقطہ عروج وہ تھا جب تقریب کے اختتام پر اولڈ راوینز انکلوژر سے بڑے بڑے عہدوں کی حامل مذکورہ شخصیات سکول کے بچوں کی طرح چبوترے کی طرف ٹوٹ پڑیں۔ ہر کسی کو خواہش تھی کہ ڈاکٹر نذیر احمد کے روبرو کورنش بجا لا کر سر پر ان کے دست شفقت یا شانے پر تھپکی سے فیض یاب ہو سکے۔ دھکم پیل میں اس ناچیز کی لاٹری بھی نکل آئی‘ وہ یوں کہ نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھنے ‘ بلکہ ان سے مصافحے کی تمنا بھی پوری ہو گئی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے مقام کے بارے میں جو کچھ سن رکھا تھا اس سے کہیں پڑھ کر پایا۔ قارئین گرامی! آخر میں اس ناچیز کو تھوڑی سی خود ستائی کی اجازت بھی دیجئے! وہ یہ کہ خاکسار لاہور میں واقع اپنے سارے تعلیمی اداروں بشمول جونیئر ماڈل سکول ‘ لوئر مال کی خواتین و مرد پرائمری ٹیچرز کے علاوہ سینٹرل ماڈل سکول گورنمنٹ کالج اور انجنیئرنگ یونیورسٹی کے جملہ اساتذہ کرام کی بلندی¿ درجات کے لئے ہمیشہ دعاگو رہتا ہے جن میں سے بیشتر اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ یہ توفیق ہم سب کو عطا فرماتا رہے۔ذات باری سے خصوصی دعا یہ بھی ہے کہ ”ہتھکڑی گردی“ برپا کرنے والے مہمانوں کو اساتذہ کرام کی خدمت میں ادب و احترام بھری تالیوں کا نذرانہ پیش کرنے کی طرف مائل فرمائے! پاکستان ‘ پائندہ باد!! ( ختم شد)