میرے دادا جان1947ء میں عید کے دن اپنے گھر بار اور ان کے درو دیوار کوروتا ہوا چھوڑ کر اپنے بڑے خاندان کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ "پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ" اور ہجرت کے اس سفر میں اسلام اور پاکستان کی محبت میں اپنے بھائیوں اور بچوں کی لاشیں بے گورو کفن چھوڑ کر عرضِ پاک تک پہنچے۔ میرے والد محترم آج بھی اپنی والدہ کی قبر ڈھونڈتے ہیں ۔ مگر افسوس کچھ اسلام کے ٹھیکیداروں کے بزرگوں کی آواز بعد از مرگ بھی ایوانوں میں گونج رہی ہے کہ "شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے" اور ان کی اولادیں بڑی بے باک ہو کر ہمیشہ یہ کہتی ہیں کہ ہم نے کبھی جشن آزادی نہیں منایا ۔ وہ درست کہتے ہیں آج بھی جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری ’’جمعیت علمائے ہند ‘‘کے پلیٹ فارم سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے 12ملین ممبرز ہیں اور جمعیت علمائے ہند نے 11ستمبر 2010کو جنرل کونسل کی میٹنگ بلائی تھی اور ایک ریزولوشن پاس کیا جسکے تین حصے تھے :۔
(1) لوگوں کو سہولتیں دی جائیں (2) پاکستان اور دوسرے پڑوسی ملکوں کی مداخلت بسلسلہ کشمیر ہمیں منظور نہیں ہے کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انڈین مسلمانوں کا پرانا سٹینڈ ہے۔ ہم یہ بات سب سے پہلے 1951ء میں اور پھر 1963ء میں اور 2009ء کے بعد آج پھر دہرا رہے ہیں ۔مسئلہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے مگر افسوس کہ پاکستان کے نام نہاد لیڈروں اور اقتدار کے پجاریوں نے طوالت اقتدار کی ہوس میں کشمیر کمیٹی جس کی ذمہ داری صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں اُجاگر کر کے UN کی قراردادوں کے مطابق اس کا قابل عمل حل نکالنا اور کشمیر سے ہندوستان کا تسلط ختم کر کے کشمیر کو آزاد کروانے اور نامکمل پاکستان کو مکمل کرنا تھا۔اُس کمیٹی کی ذمہ داری کچھ ایسے لوگوں کودی جنہوں نے کبھی کشمیر کیلئے بات ہی نہیں کی ۔ ان کشمیر کمیٹی کے ذمہ داروں میں مولانا فضل الرحمن صاحب کا نام بھی آتا ہے۔ مولانا کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ ان سے کوئی ان کی خدمات اور ذمہ داری کے بارے میں پوچھ سکے بلکہ جب مسئلہ کشمیر پہلی مرتبہ دنیا میں اُجاگر ہوتا ہے تو اسکی سب سے زیادہ تکلیف مودی اور اسکے بہت سے مسلمان دوستوں کو بھی ہوتی ہے۔ ابھی وزیر اعظم پاکستان واپس نہیں پہنچتے ہر طرف دنیا میں کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم بے نقاب ہوتے ہیں اور ہر ملک سے مودی مردہ باد کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ اچانک اسلام آباد پر چڑھائی اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کی آوازیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ دنیا کہ میڈیا پر مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دینے کے ساتھ پاکستان کے میڈیا پر ہیڈ لائن میں کشمیر سرِ فہرست ہوتا ہے مگر اس ملک دشمن حرکت کے بعد کشمیر کے مظالم کی خبر ڈھونڈنے سے بھی کم نظر آتی ہے اور اسکی جگہ کشمیر کمیٹی کے سابقہ چیئرمین مولانا فضل الرحمن لے لیتے ہیں ۔ اور اِن ڈائریکٹ مسئلہ کشمیر کے حل میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ انہوںنے مسئلہ کشمیر کیلئے کبھی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے رابطہ کیا ؟ کبھی کشمیر کی آزادی کیلئے کوئی کانفرنس کی ،کبھی جشن آزادی منایا ،کبھی دنیا میں کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کو دنیا کے سامنے لائے؟ شاید ہر گز نہیں لائے ہاں البتہ پاکستان کیخلاف اجیت ڈوول سے ملاقاتیں ضرور کرتے رہے ۔ میں بحیثیت پاکستانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ جنہوں نے آپکو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا انھوں نے بھی پاکستان کے کاز کو نقصان پہنچایا ہے اور اسی وجہ سے آج انکی محبت میں مولانا پاکستان کے اداروں کو بھی تھریٹ کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دیں ہم آپ سے لڑنا نہیں چاہتے ۔ یہ کیا مذاق ہے؟ ان کی ہر حرکت کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے جو پاکستانی قوم کو ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ایک TVپروگرام کے دوران جنرل (ر) شعیب صاحب اپنی رائے دے رہے تھے اسی دوران مقبوضہ کشمیر سے میر واعظ عمر فاروق کو لائن پر لیا گیا۔ اینکر پرسن نے کشمیر کمیٹی اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں سوال کر دیا جس پر میر واعظ عمر فاروق خاصے طیش میں آگئے اور کہا کہ کونسی کشمیر کمیٹی اور کونسی کار کردگی؟ مولانا فضل الرحمن نے کیاآج تک کشمیر کے بارے میں کوئی قدم اٹھایا یا ان کا کوئی ایسا بیان جس سے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھا گیا ہو ریکارڈ پر ہے ؟
کم از کم مجھے بحیثیت پاکستانی شرم آتی ہے کہ کشمیر کے کاز کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کا کروڑوں کا نقصان بھی کیا ۔ لوگ تو آج بھی سوال کرتے ہیں کہ پرویز مشرف صاحب سے 1200کنال زمین کس لیے لی تھی۔صاحب اقتداراللہ کے واسطے حکومت کی رِٹ بحال کریں اب مزید ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں ۔ میں میؤراجپوت برادری سے تعلق رکھتا ہوں توکیا کل میں اعلان کروں کہ میں بھی 50لاکھ میؤراجپوتوں کو لے کر اسلام آباد کی طرف آرہا ہوں ۔
آج ملکی حالات اور پاکستان کا کھا کر پاکستان کو زخم لگانے والوں سے شہداء کی روحیں سوال کر رہی ہیں کہ :
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
جب بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے۔۔۔۔
Oct 29, 2019