سراپا حضورﷺکا

سفرہجرت کے درورانِ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک صحرانشین خاتون ام معبد کے خیمہ کے پاس سے ہوا۔حضرت ابوبکر صدیق اور ان کا غلام عامر بن فہیرہ آپ کے ہمراہ تھے ۔ام معبد سے پوچھا گیا کہ اگر اس کے پاس کچھ دودھ یا گوشت ہوتو ہم اسے خرید ناچاہیں گے۔اس نے کہا اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں بصدمسرت آپ کی میزبانی کرتی ۔ لیکن قحط سالی کی وجہ سے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔خیمہ کے کونے میں ایک مریل سی بکری کھڑی تھی۔حضور نے اس کے بارے میں پوچھا ۔اس نے کہا یہ کمزوری کی وجہ سے چرنے کے لیے نہیں جاسکتی ۔آپ نے فرمایا اگر اجازت دو تو ہم اس کا دودھ دوہ لیں اس نے کہا اگر اس میں سے کچھ دودھ نکل سکتا ہے تو بصد شوق لے لیجئے حضور نے اللہ کا نام لے کر اپنا دستِ معجز نظام اس کے تھنوں پر پھیرا اس کی خشک کھیری سے اتنا دودھ نکلا کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔دوبارہ دوھا گیا تو گھر کے سارے برتن بھرگئے۔ آپ نے شکر یہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔شام کو اس کا خاوند کام کاج سے فارغ ہوکر واپس آیا تو گھر میں دودھ کی یہ فراوانی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کے استفسار پر ام معبد نے کہا ایک بابرکت ہستی یہاں تشریف لائی تھی۔ یہ سب اسی کا فیضان ہے۔ اس کاخاوند بولا : مجھے تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کی تلاش میں قریش سرگرداں ہیں مجھے ذرا ان کا حلیہ تو بتائو، اس پر ام معبد نے آنحضورکے سراپا کا انتہائی دلکش انداز میں نقشہ کھینچا ۔
’’ام معبدکہنے لگی:’’میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حسن نمایاں تھا جس کی ساخت بڑی خوبصورت اور چہرہ ملیح تھا۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنارہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بڑاحسین ،بہت خوبرو۔آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں پلکیں لابنی تھیں ،اس کی آواز گونج دار تھی،سیاہ چشم،سرمگین ،دونوں ابر وباریک اور ملے ہوئے،گردن چمکدار تھی، ریش مبارک گھنی تھی،جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے ،جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور بارونق ہوتا، شیریں گفتار ،گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ ،گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑرہے ہوتے۔دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔قددرمیانہ تھا، نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے،نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں،آپ دوشاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سرسبز وشاداب اور قد آورہو۔ان کے ایسے ساتھی تھے جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً اسکی تعمیل کرتے۔اگر آپ انہیں حکم دیتے تو وہ فوراً اس کو بجالاتے۔ سب کے مخدوم ۔سب کے محترم۔نہ وہ ترش رو تھے نہ انکے فرمان کی مخالفت کی جاتی تھی‘‘۔(ضیاء النبی)

ای پیپر دی نیشن