مجاہد ختم نبوت ‘ آغا شورش کاشمیریؒ

؎ دوچار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے
غالباً1969ء کی بات ہے برصغیر پاک وہند کے نامور صحافی و خطیب آغا شورش کا شمیریؒ سے لاہور میں ان سے پہلی ملاقات میکلوروڈ روڈ پر واقع ہفت روزہ چٹان کے دفتر میں ہوئی جب ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک عروج پر تھی میں نے بھی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اس تحریک میں حصہ ڈالا تحریک میں ’’سرگرم عمل‘‘ تھا آغا صاحب سے ملاقات نے ان سے ارادت کی شکل اختیار کر لی ۔ پنجاب کے دل ’’لاہور‘‘ میں آگ لگی ہوئی تھی زندہ دلان لاہو ر کے لئے جلسے جلوس روزمرہ کا معمول بن چکے تھے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے باہر وکٹوریہ کے چبوترے کے نیچے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا تو میں بھی اس کیمپ میں بیٹھ گیا تو رات کے پچھلے پہر اس وقت کے ایس ایس پی اصغر خان المعروف ’’ہلاکو خان ‘‘ (بھکر سے قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں آئے) نے ہم سب کو پولیس کے ذریعے اٹھوا کر چونیاں میں نہر کے کنارے پھینکوا دیا جہاں سے ہم لٹے پھٹے قافلے کی صورت میں ننگے پائوں لاہور واپس پہنچے تو نامور قانون دان ایم انور بار ایٹ لا نے اپنی’’ جیب خاص ‘‘سے نئے جوتے خرید کر دئیے ۔ پھر جب 31دسمبر 1970ء کو جنرل یحییٰ خان سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی تو لیاقت باغ کے وسیع میدان میں پہلا جلسہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت منعقد ہوا ۔ جلسہ کے بعد آغا شورش کا شمیریؒ دار العلوم تعلیم القران راجہ بازار میں مولانا غلام اللہ مرحوم کے ’’مہمان خاص ‘‘ کی حیثیت سے قیام کیا آغا شورش کاشمیریؒ سے مولانا غلام اللہ کے ہاں ہونے والی تفصیلی ملاقات کے بعد میرا ان سے ایسا رشتہ قائم ہوا جو ان کی وفات کے بعد بھی ان کی اولاد آغا مسعود شورش اور آغا مشہود شورش کے ذریعے قائم ہے ۔آغا شورش کا شمیری ؒ سے تعلق ہی تھا میں ان سے ملاقات کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر گیا وہ پشاور جاتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر کچھ دیر کے لئے رکے تو انہوں نے ’’ جیب خاص ‘‘ سے 60 روپے ادا کر کے مجھے بھی اپنے ساتھ جہاز پر پشاور لے گئے میں اپنا بائیسکل سٹینڈ پر ہی چھوڑ کر ان کے ساتھ جہاز میں بیٹھ گیا ۔ برصغیر پاک ہندمیں آغا شورش کا شمیری کو’’ مجاہد ختم نبوت ‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے انہوں نے اپنی تحریرو تقریر کے ذریعے’’ فتنہ قادیانیت‘‘ کا تعاقب کیا مجھے ممتاز لیاقت کے ہمراہ 1974ء میں آغا شورش کا شمیری کا ’’فتنہ قادیانیت ‘‘ پر انگریزی ، عربی اور فرانسیسی زبان میں لکھا ’’کتابچہ ‘‘ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں میں تقسیم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ہمیں ’’خفیہ ایجنسیوں‘‘ کے اہلکاروں نے یہ کار خیر کرتے دیکھ لیا لیکن ہمارے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ۔ آج 44سال بعد بھی پارلیمنٹ کا ایوان ہو یا لیاقت باغ و موچی گیٹ ’’ زندہ ہے شورش زندہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی ؒاور مجید نظامی ؒ کے ساتھ مل کر ’’استحکام پاکستان ‘‘کی تحریک کو مضبوط کیا مجید نظامیؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ کی مثالی دوستی تھی انہوں نے لاہور میں اسلام ، پاکستان اور جمہوریت کا مضبوط مورچہ لگایا آغا صاحب نے قید وبند کی صعوبتیں جرات و استقامت سے برداشت کیں ۔ جیل یاترا ان کے لئے ’’عجلہ عروسی ‘‘سے کم نہیں تھا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان پر کبھی ختم نبوت اور کبھی توہین رسالتؐ جیسے حساس امور پر بیرونی دباؤ ڈالا جاتارہاہے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا حوصلہ دیا۔ انھوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد ینے میںاہم کردار اد کیا۔شورش کاشمیریؒنے علم و ادب اور صحافت کو نئے اسلوب سے روشناس کرایا۔ انہوں نے تین سو سے زائد اصطلاحات متعارف کرائیں ،جس کا اعتراف خود جوش ملیح آبادی،ساحر لدھیانوی،احمد ندیم قاسمی نے بھی کیا آغا شورش کاشمیریؒ کا ہی یہ اسلوب تھا کہ انھوں مولانامفتی محمودؒ کو اپنی تحریر میں صوبہ سرحد کا ’’درویش وزیر اعلیٰ ‘‘ قرار دیا۔ملکی حالات ایسے ہیں کہ آج پھر شورش ؒ کی یاد آرہی ہے ۔وہ اپنی زندگی میں اپنا مرثیہ خود ہی پڑھاکرتے تھے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں
؎ ؎ الغرض یہ اس مقرر کا تھا سفر آخری
عمر بھر رہا جس کو رہا حاصل خطیبانہ کمال ۔
جس طرف نکلا جہاں پہنچا فضا پر چھا گیا
اس کے سر پہ تھا فروزاں سایہ ایزد تعال
دس برس تک سختیاں جیلیں بنام حریت
قید تنہائی میں کاٹے جس نے اپنے مہ و سال
شاعرانہ روپ تھا اس کی زبان کا بانکپن
اس کے لہجے سے ٹپکتا تھا ادیبانہ جمال
بات سچی دار کے تختہ پہ بھی کہتا تھا وہ
ٹوکتا کوئی اسے کسی شخص میں تھی نہ مجال
آغا شورش کاشمیری کے مزیداشعار پیش خدمت ہیں
؎ ہر دور میں ہر حال میں تابندہ رہوں گا
میں زندہ جاوید ہوں تابندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا ۔
شورش کا شمیریؒ نے تحریک ختم نبوت میں بھی درج ذیل اشعار کہے
؎ ؎اپنی اس تحریک میں ایسے اٹھائوں گا شہید
جن کے مدفن کو زمین کربلا دینی پڑے
اتنا کر دوں گا میں مائوں کی محبت بلند
دل کے ٹکٹروں کو شہادت کی دعا دینی پڑے
شورش کاشمیری کی تحریر اور خطابت دونوں ہی مسحور کن تھے۔انکے جوش خطابت سے مجمع ان کے سحر میں مبتلا ہوجایاکرتاتھا۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘اس دور کا واحد ہفت روزہ اخبار تھا جس کی اشاعت ایک لاکھ سے زائد تھی اور اس کا مواد اتنا جاندار تھا کہ قاری شمارے کا انتظار کیا کرتے تھے۔حکومت کے خلاف کھل کر لکھنے کی پاداش میں کئی بار ان کے اخبار کو بند کر دیا گیا ۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے اخبار کی بندش پر بھاری معاوضہ کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے ختم نبوت کے لئے دی گئی قربانیوں کا سودا کرنے انکار کر دیا ۔ سید ابو اعلیٰ مودودی ، ذوالفقار علی بھٹو، نوابزادہ نصراللہ ، حسین شہید سہروردی ، خان عبدالولی خان ، ارباب سکندر خان خلیل سمیت بڑے بڑے لیڈروں نے آغا شورش کاشمیریؒکی رہائش گاہ پر حاضری دی ہے ان کی وفات کے بعد میاں نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی بھی اس دربار پر حاضری دے چکے ہیں باچہ خان خان عبد الغفار خان نے تو صوبہ بدری کا سارا وقت ہی آغا شورش کاشمیری ؒ کے گھر پر گذارا تھا یہ ان کی بلند حوصلہ رفیق حیات خورشید بیگم مرحومہ تھیں جنہوں نے نہ صرف اس گھر میں آنے والوں کے لئے دروازے کھلے رکھے بلکہ مہمان نوازی کا حق اداکیا آغا شورش کاشمیری مرحوم کی وفات پر مجلس احرار کے قائد مولانا تاج محمود نے کہا کہ’’ آغا مسعود شورش اور آغا مشہود شورش کے لئے تو ان کا عظیم باپ دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن ہمارے تو جلسوں کی رونق ہی ختم ہو گئی ‘‘ برصغیر پاک و ہند میں حضرت عطا اللہ شاہ بخاری جیسا مقرر شاید ہی پیدا ہوا ہو ان کے بعد اگر کسی خطیب کو عوام کی طرف سے بے پناہ پذیرائی ملی تو وہ آغاشورش کا شمیری ہی تھے۔ وہ64سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ آغا شورش کاشمیری اپنے پیچھے 24دی مال لاہور کا تاریخی ’’ڈیرہ ‘‘ چھوڑا ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں کمرشل پلازہ میں تبدیل کرنے کی بجائے اپنی اصلی شکل میں برقرار رکھا ۔میں آغا شورش کاشمیری کی دو بہادر بیٹیوں ’’لالی‘‘ اور صوفیہ شورش کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں صوفیہ شورش جوانی میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں ’’لالی‘‘ نے زمانہ طالبعلمی میں آمریت کے خلاف تحاریک میں بھر پور حصہ لیا ان کی خاردار تاروں میں الجھی تاریخی تصویر آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے میرا آغا شورش کاشمیریؒ سے تعارف جناب مجید نظامیؒ نے کرایا تھا انہوں نے جن شاندار الفاظ میں میرا جناب مجید نظامی سے تعارف کرایا وہ ان کے ذہن میں ہمیشہ نقش رہا افسوس ہفت روزہ چٹان اپنی اشاعت کاسلسلہ برقرار نہ رکھ سکا آغا شورش کاشمیری نے جو ورثہ چھوڑا ہے اسے محفوظ نہ رکھا جا سکا۔

ای پیپر دی نیشن