سازشیں اور ملت اسلامیہ

ترجمہ: اور (اے مسلمانو!) ان کے مقابلے کیلئے تم سے جس قدر ہو سکے قوت مہیا کر رکھو اور باندھے ہوئے گھوڑوں کی کھیپ بھی۔ اس دفاعی تیاری سے تم اللہ کے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن کی چھپی دشمنی کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے۔(پارہ:  10 سورۃ انفال:  آیت  60)
آیت مبارکہ کا مفہوم واضح کرتا ہے کہ میدان جنگ میں طاقتوں اور اسلحوں کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ تمام ایسے پہلوئوں پر کام کیا جائے جو طاقت کے محور ہوں اور جس سے ہم اپنے اسلامی معاشرہ کا رعب و دبدبہ ان تمام متحارب معاشروں کے دلوں میں پیدا کر سکیں جو ہر وقت موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ دور حاضر میں ان تمام قوتوں میں اقتصادی قوت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اقتصادیات کے عالمی اثرات کی وجہ سے ہی عالمی قوتوں کے زیر اثر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے غریب اور متوسط ممالک کو زیر دام لانے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ لہذا حکومت کا فرض ہے کہ ایسی قوت کی فراہمی ممکن بنائے تاکہ دشمن اسلام کو مرعوب و متاثر کیا جا سکے۔ 
فرانسیسی صدر کے الفاظ کسی چھپے ہوئے دشمن کے نہیں بلکہ ہر اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں جو مغرب کے معاشرے میں پنپ رہے ہیں۔ ہالینڈ، ڈنمارک اور دیگر ممالک میں ہونیوالے واقعات اور ملت اسلامیہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے اسلوب اس بات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ کروسیڈ کا لاوا بری طرح پک رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں اپنا عملی کردار ادا کر رہے ہیں؟  مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں واضح طور پر مسلمانوں کو راہ عمل کیلئے ہداہت کی گئی ہے جس میں عسکری قوت ہی نہیں بلکہ ہر اس عمل کی پیروی کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے ہم اپنی معیشت ، اقتصادیات اور قوت کے تمام پہلوؤں پر دوسروں سے کہیں بہتر مقام حاصل کر سکیں۔ 
ملت اسلامیہ میں ترکی اور ملائشیا کے علاوہ گلف ممالک مالی طور پر مستحکم کہلائے جا سکتے ہیں۔ ان ممالک میں صرف ترکی ایسا ملک ہے جس کی عسکری قوت دفاعی درجے کی ہے۔ پاکستان کی عسکری قوت بہترین مگر قرضوں کے جال میں اس ملک کو کسی بے بس پنچھی کی طرح پھڑپھڑانا پڑ رہا ہے۔ بہرطور پاکستان کی عسکری قوت ان طاغوتی قوتوں کے نشانے پر ہے جن کی طرف اللہ تبارک تعالیٰ نے واضح اشارہ کیا ہے۔ انہی ظاہری اور چھپے ہوئے دشمنوں نے پاکستان کے خلاف ایک ایسی چومکھی جنگ کی شروعات کر رکھی ہے تاکہ جنگ کئے بغیر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔ ملک خداداد کے خلاف کھلی دہشت گردی تو ہو ہی رہی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ہمارا ملک معاشی دہشت گردی کا شکار ہے جس کی ابتداء قیام پاکستان سے قبل ہی شروع کر دی گئی تھی‘ جس میں پاکستان کی طرف آنے والی نہروں کوبند کرکے پاکستان کو بنجر بنانا مقصود تھا۔
یہاں ایک اور سوال شدت سے پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے مقتدر اداروں کو اپنے قومی وسائل کا علم نہیں کوئلے اور تیل کے وسیع ذخائر رکھنے کے باوجود ان کی بھاری مقدار میں درآمد کی جا رہی ہے۔ ملک دشمن عناصر نے علاقائیت اور صوبائیت کو ہوا دے کر قومی وسائل کو تقسیم کرنے کا کام کیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے نام پر وہ ایسے کسی منصوبے پر عمل پیرا نہیں ہونے دیتے جن کے ذریعے پاکستان اپنے معاشی مسائل پر قابو پا کر غیروں کے شکنجے سے باہر نکل سکے۔ حد تو یہ ہے کہ معمولی استعمال کی چیزوں کیلئے بھی ہم دوسروں کے دستِ نگر بن چکے ہیں۔ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی فعالیت صفر ہونے کی وجہ سے قومی وسائل کی پیداواری صلاحیت پر حرف آخر لگا دیا گیا ہے۔ خوراک کی پیداوار میں دنیا پر راج کرنے والی پانچ دریاؤں کی دھرتی میں مشروبات‘  بسکٹ‘  چاکولیٹ وغیرہ بھی بیرون ممالک کی کمپنیوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ کیا پرنس، لیو اور بیکری جیسے فرانسیسی بسکٹوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا اور کیا یہ راکٹ سائنس ہے کہ ہمارے ادارے اس معیار کے بلکہ اس سے کہیں اچھے معیار کے بیکری پراڈکٹس تیار نہیںکر سکتے؟
یاد رکھیں! ملت اسلامیہ کو نقصان ہمیشہ غداروں نے پہنچایا ہے۔ ننگ ملت، ننگ دین جعفروصادق کی وجہ سے ہندوستان پر انگریز قابض ہوئے تھے۔ اب بھی ایسے ہی غدار پاکستان کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ غیروں کے اشاروں پر پلنے والے ان تمام  غداروں کو آ  ہنی ہاتھوں سے انجام پر پہنچا کر وطن کی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی صدر کی اسلام اور توہین رسالت سے متعلق ہرزہ رسائی کے بعد ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ محض بائیکاٹ اور چند دن احتجاج کو ہی محور بنا کر مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں قرآن پاک کے ان احکامات کی تعمیل کرنا ہوگی جن سے دور ہو کر ہم دوسروں کے معاشی غلام بنے ہوئے ہیں۔ قرضوں کے جال میں دنیا کی تیسری بڑی ایکٹیو عسکری قوت بے بسی کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، وہاں مسلم آبادی کے توازن کو بگاڑنے پر کام شروع ہے لیکن ہم محض زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اسکی بڑی وجہ معاشی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہماری ناکامی ہے جسے ملک دشمن عناصر بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ معاشی دہشت گردی پر نکیل ڈال کر ہم اپنے اندر چھپے دشمنوں کا صفایا کرکے فرانسیسی صدر جیسوں کو کڑا جواب دے سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن