امریکی صدارتی الیکشن ‘  ٹرمپ بمقابلہ جوبائیڈن''

Oct 29, 2020

وجیہہ الدین خان

امریکہ میں آج کل صدارتی الیکشن کی بھر پور انداز میں تیاری جاری ہے۔ امریکہ میں صدارتی الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کی تاریخ 3 نومبر 2020 بروز منگل مقر ر کی گئی ہے تاکہ امریکی رہائشی اپنے ملک کے صدر کا انتخاب کر سکیں۔ امریکہ میں صدارتی نظام ِ حکومت رائج ہے اور امریکی صدر دنیا کا طاقتور ترین صدر تصور کیا جاتاہے جبکہ صدر کا انتخاب 4 سال کے لیے ہوتاہے۔ 
امریکہ میں صدرکے انتخاب کا مرحلہ انتہائی دلچسپ ہوتا ہے۔پہلے مرحلہ میں ووٹر الیکٹرول کالج کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ دوسرے مرحلہ میں الیکٹرول کالج ووٹ کاسٹ کرکے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ امریکہ میں 50 ریاستیں اور واشنگٹن ڈی سی دارالحکومت کو 538 الیکٹرول کالج میں آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیاگیا ہے۔ جو صدارتی امیدوار 270 الیکٹرول جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی امریکہ کا صدر بننے کا اہل قرار پاتا ہے۔ امریکہ میں 6 ریاستیں الیکٹرول کالج کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کیلیفورنیا ریاست سے 55، ٹیکساس سے 38، نیو یارک سے 29، فلوریڈ ا سے 29، الی نوئیس سے 20 اور پنسلو ینیا سے 20 الیکٹرول کالجز کا انتخا ب کیا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان 6 ریاستوں سے الیکٹرول کالجز کی تعداد 191 ہے جبکہ باقی 44 ریاستوں سے 347 اور واشنگٹن ڈی سی دارالحکومت سے تین الیکٹرول کالجز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 
امریکہ میں صدارتی نظام حکومت میں دو ایوان ہوتے ہیں۔ ایک کو ایوان نمائندگان کہتے ہیں۔ جس میں منتخب نمائندگان کی تعداد 435 ہوتی ہے اور 435 نمائندگان کو آبادی کے لحاظ سے مساوی تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس ایوان کو ایوان زیریں بھی کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ دوسرا ایوان سینٹ ہے جس کو عام فہم زبان میں ایوان بالا کہا جاسکتا ہے۔ اسکے نمائندوں کی تعداد 100  ہوتی ہے۔ ہر ریاست سے 2 نمائندے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ جن کو سینیٹر کہا جاتا ہے۔اس طرح ایوان نمائندگان اور سینٹ مل کر امریکی کانگریس کہلاتی ہے۔ امریکی نائب صدر سینٹ کا صدر ہوتا ہے جبکہ ایوان نمائندگان اپنے منتخب نمائندوں میں سے سپیکر کا انتخاب کرتے ہیں۔ایوان نمائندگان کی مدت 2 سال ہوتی ہے۔ جب کہ سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے۔ ایوان نمائندگان کا انتخاب ہر 2 سال کے بعد نومبر کے پہلے ہفتہ یعنی منگل والے دن کیا جاتا ہے۔ جب کہ سینیٹرز کا انتخاب ہر 2 سال کے بعد تین چوتھائی 33 فیصد کا انتخاب بھی اسی دن کیا جاتاہے۔ اسی طرح ہر4 سال بعد امریکی شہری نومبر کے پہلے ہفتہ، منگل والے دن صدر و نائب صدر کیلیے 538 الیکٹرول کالج، 435 ایوان نمائندگان اور تقریباً 33فیصد سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔ 
اس سال 3 نومبر کو امریکی شہری صدر ونائب صدر کیلئے 538 الیکٹرو ل کالج اور 3 الیکٹرول کالج واشنگٹن ڈی سی، 435 ایوان نمائندگان، 35 سینیٹرز (33 سینٹ کی بمعہ 2 خالی ہونیوالی نشستوں) کا انتخاب کرینگے۔ اس طرح الیکٹرول کالج 14 دسمبر کو امریکی صدر و نائب صدر کا انتخاب کرینگے جبکہ 20 جنوری 2021 کو نو منتخب صدر اور نائب صدر عہدہ کاحلف لیں گے۔ امریکہ میں الیکٹرول کالج کا نتیجہ ہی حتمی سمجھا جاتا ہے۔ جو پارٹی زیادہ الیکٹرول کالج جیتتی ہے وہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ جس ریاست میں جو بھی پارٹی زیادہ ووٹ لیتی ہے تمام الیکٹرول کالج اس پارٹی کے ہی منتخب تصور ہوتے ہیں۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن نے 48.2فیصد ووٹ لیے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 46.1 فیصد ووٹ لیے جبکہ ہیلری کلنٹن 20 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں کامیاب ہو کر 227 الیکٹرول کالج منتخب کروا سکیں اور ڈونلڈ ٹرمپ 30 ریاستوں میں جیت کر 304 الیکٹرول کالج منتخب کروا کر امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ 2020 کا صدارتی انتخاب موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ '' جن کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے''اور جوبائیڈن (جن کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے)کے درمیان تصور کیا جا رہاہے۔ ہمیشہ سے ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی ہی مد مقابل نظر آئی ہیں۔ چاہے انتخاب صدر کا ہو یا گورنر کا، ایوان نمائندگان کا ہو یا سینیٹرز کا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے علاوہ دیگر تین امید وار بھی صدارت کی دوڑ میں شامل ہیں۔ 
جوبائیڈن 2009سے لے کر 2017 تک سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے نائب صدر رہے ہیں اور کامیاب ترین نائب صدر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جوبائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور خیا ل کیا جاتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے انتہائی کامیاب ترین شخص کو موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اتارا ہے۔ امریکی صدارتی الیکشن میں ہمیشہ ''سونگ اسٹیٹ'' نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس دفعہ ریاست لووا، مشی گن اور میین کو امریکی صدارتی الیکشن میں اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس دفعہ 2 کروڑ 20لاکھ سے زائد امریکی ووٹرز نے پوسٹل ووٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا ہے۔ جو کہ 2016 اور 2018 کے الیکشن میں پوسٹل ووٹ کاسٹ ہونے سے زیادہ ہے جس کی اہم وجہ کرونا وائرس سمجھی جا رہی ہے۔ 
امریکہ میں صدارتی الیکشن میں اہم ایشو ز میں سے ایک کرونا وائرس کووڈ-19 سے تقریباً 220,000 امریکی شہریوں کی ہلاکتیں اور اس عالمی وبا کو روکنے کیلئے امریکی حکومت کی مؤثر حکمت عملی کا نہ ہوناشمار کیا جا رہا ہے۔ دوسرا ایشو ایک سیاہ فام امریکی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت ہے۔اس دفعہ کے دونوں اہم صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کی عمریں 70 سال سے زائد ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ 74 سال جبکہ جوبائیڈن 78 سال کی عمر میں امریکہ کا صدارتی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اگر جوبائیڈن کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ امریکہ کے معمر ترین صدر ہونگے۔ امریکی الیکشن کا نتیجہ ہمیشہ سے ہی پوری دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ 
ایک سروے کیمطابق 52فیصد امریکی جوبائیڈن کے اور 42 فیصد ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں۔ اس وقت تک پوسٹل ووٹ کاسٹ ہو چکے ہیں جو کہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے کل کاسٹ ووٹوں کا تیسرا حصہ ہیں۔ اور بقایا ووٹ 3 نومبر 2020 کو کاسٹ کیے جائیں گے۔ یہ امریکی تاریخ کا 59 واں صدارتی الیکشن ہے۔ 
امریکی صدارتی الیکشن کو دنیا میں انتہائی اہم جمہوری الیکشن تصور کیا جا تا ہے جہاں دونوں مضبوط صدارتی امیدوار آمنے سامنے مباحثہ کرتے ہیں اور اپنی جماعت کا منشور مؤثر طریقہ سے بیان کرتے ہیں تاکہ امریکی عوام کو اپنی جماعت کی طرف مائل کر سکیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر صدارتی امیدوار موجودہ صدر کو ہرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو موجودہ صدر نو منتخب صدر کو تفصیلی بریفنگ دیتا ہے تاکہ مملکت کے امور انتہائی مؤثر طریقے سے چلائے جاتے رہیں جو کہ قابل ستائش اور تقلید کے قابل عمل ہے۔ امریکی صدر جو بھی ہو امید کی جانی چاہیے کہ نو منتخب امریکی صدر عالمی وبا سے پیدا شدہ معاشی مشکلات کے حل میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔ 

مزیدخبریں