دہشت گرد امت مسلمہ کیلئے ناسور ہیں ان کو نیست ونابود کرنا اور ان کے پیچھے کام کرنے والے ماسٹر مائنڈز کو عوام کے سامنے لانا ناگزیر ہوچکاہے۔ معصوم آنکھوں میں ابھرنے والے خواب ایک بارپھر خون آلود ہوگئے، ابھی تو آرمی پبلک سکول کا نوحہ بھی جاری تھا، بین کرتی مائیں، بہنیں، باپ اوربھائی اپنے پیارے لخت جگر ڈھونڈتے پھرتے ہیں کسی بھی شہید کے والدین سے آج بھی سسکیوں کی صدائیںسنی جاسکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی تصویریں سینے سے لگائے16دسمبر2014ء کی طرح ہی تڑپ رہے ہیں۔ ماں کے چومنے سے چمکنے والی پیشانیاں اور دہکنے والے رخسار جب ٹکڑوں میں بٹ کے تابوت میں سامنے آئے تو وہ منظر قیامت کا تھا۔ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کیلئے کس طرح چادریں اٹھا اٹھا کے چلاتی ہوئی مائیں لاشوں سے لپٹ رہی تھیں پھر کون کہتاہے ہے کہ دہشت گردی ختم ہوگئی تھی۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے بڑی جوانمردی سے ہر دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ افواج پاکستان نے ملک کا کوئی ایساکونہ نہیں چھوڑا جہاں یہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پہ رکھ کے پیش نہ کیاہو۔ عزیز ہم وطنو! جنت کے مسافر کا ٹھکانہ دنیا نہیں ہے، اسے جانا ہے، اپنی جان جان آفرین کے نام کرکے داغ مفارقت دے جاناہے۔ انہیں تو چُنا جاتاہے، انہیں آسمانوں پہ نام لے لے کے پکارا جاتاہے، فرشتے شہید کی موت پررشک کرتے ہیں۔ پشاور کے مدرسے میں دہشت گردی کا یہ دھماکہ ریاست کی کمزوری نہیں سمجھا جاسکتا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے لیے انتہائی افسوسناک اور شرمناک مرحلہ ہے۔ ذمہ دار ادار ے ہائی الرٹ کے علاقوں سے باخبرہوتے ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے اتنا بڑا سانحہ دوبارہ ہونا ایک سوالیہ نشان بن گیاہے۔ شیخ رشید نے کچھ روز پہلے کہا تھا کہ کوئٹہ اور پشاور میں دھماکے ہوسکتے ہیں ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گرد جس کو بڑے پیمانے پہ اپنی جنونیت کا نشانہ بناتاہے اصل میں تو وہ ان کا ہدف ہوتے ہی نہیں ہیں۔وہ تو کسی اور کو خوف میں مبتلا کرکے یہ پیغام دیتاہے کہ دیکھو ہم ظلم کی اس انتہا پہ پہنچ سکتے ہیں اس لیے آج ہم تمہارے عوام کو اس طرح خون میں لت پت کر کاٹ ڈالتے ہیں تو کل تم بھی ہمارے اس بیہمانہ سلوک کا نشانہ بن سکتے ہو۔
پشاور دیر کالونی میں مدرسہ میںدھماکے کے نتیجے میں7بچے شہید اور100کے قریب زخمی ہوئے ہیں ان میں زیادہ بچوں کی تعداد تھی، یہ آئی ای ڈی بلاسٹ انتا سخت تھا کہ مسجد کی چھتیں بھی اڑ گئیں اور فرش میں بھی شگاف پڑگئے۔ہر طرف ایمبولینس کے سائرن، سڑک پہ بھاگتے راہگیروں کی چیخ وپکارسے دل دہل رہاتھا۔ مسجد میں ایک شخص نے بیگ رکھا اور باہر نکل گیا ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا، قرآن پاک کی تلاوت فرماتے ہوئے اور درس سنتے ہوئے بچے روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑے اور ساتھ ہی آہ وفغان اور دردناک آوازوں نے قیامت بپا کردی۔ اس مدرسے کو پہلے بھی دھمکی مل چکی تھی تولگی ہوئی ہولناک آگ میں سے کون کس کو بچا سکتاہے، چیخ وپکار سے جو درو دیوار ہل گئے تھے اور خون کی ہولی کھیلی گئی اس کا موجب کون ہے؟ پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال(LRH) وہی ہسپتال ہے جہاں16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول کے بچے ٹکڑوں کی صورت میں لائے گئے اوریہاں کے انتہائی دردمند عملے نے کس طرح خون روتی آنکھوں اور تڑپتے دل کے ساتھ ان کے اعضاء آپس میں جوڑ کے والدین کے سپرد کیا۔ یہLRHوہی ہسپتال ہے جو فوجی ہسپتالCMHکے ساتھ ساتھ یوں اپنے شہیدوں اور زخمیوں کو سنبھال رہا تھا جیسے سب اسی کے لخت جگر ہوں۔ سلام ہے ایسے ڈاکٹرز اور نرسز کو جو اس اذیت ناک لمحے میں ہمت سے کام لے کر مریض کو بچالیتے ہیں اور مرنے والے کیلئے زندگی کی آخری سانس تک کوشاں رہتے ہیں۔ کسی کے آنگن کا پھول کھلا رہے کسی کی کوکھ اجڑنے سے بچ جائے۔ دیر کی مسجد میںدھماکہ خیز مواد بند کمرے میں استعمال کیاگیا بارودی مواد کے ساتھ بال بیرنگ بھی موجود تھے جوحد سے زیادہ نقصان کا سبب بنے۔ آگ بھڑک اٹھی باوضو معصوم لوگ درس لے رہے تھے انہیں اپنے دین کیلئے اپنے آپ کو ایک باکردار انسان بنانا تھا۔ ان میںسے کئی اپنے ماں باپ کا اکلوتا سہارا ہونگے جنہوں نے دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرکے خود کوخاتم النبین حضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالناتھا، مگر شرپسند عناصر نے ان کو آگ میں جھلسا دیا، ظلم کرنے والا تو ایک ایک شخص واصل جہنم ہوگا۔ دہشت گردی میں جو دنیا سے چلے گئے ان کا غم اپنی جگہ مسلم ہے مگر جو شدید زخمی ہوکر معذور ہوگئے ان کی زندگی اور ان کی ذہنی اذیت کو کیسے سنبھالا جائے گا۔ بے شک ہم جانتے ہیں کہ آزمائش اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ آج پھرپوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی ہے ان معصوموں کے خون کا حساب کیا مانگیں، ہم تو حساب مانگتے مانگتے اور بوڑھے ماں باپ جوان بچوں کے لاشے دفناتے دفناتے تھک گئے۔