دسمبر 1971میں جی ایم صادق کے انتقال کے بعد سید میر قاسم مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ بن گیا ۔کشمیر کے اندرونی حالات ابتر تھے ہندومسلم فسادات اور شیخ عبداللہ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں روز مرہ کا معمول تھیں ۔مئی 1973میں وادی کشمیر کے شہر اننت ناگ میں ایک کتاب میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐکے ایک خاکے کا انکشاف ہوا تو بڑے پیمانے پر پورے مقبوضہ کشمیر میں زبردست احتجاج شروع ہو گیا ۔حالات اتنے خراب ہو گئے کہ موئے مبارک کی گمشدگی سے موازنہ کیا جانے لگا ۔ان حالات میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کا مطالبہ کیا اور اس کی حمایت کے لیے مقبوضہ کشمیر میں آٹھ اور دس نومبر کو ہڑتال کی کال دی جو بہت کامیاب رہی ۔میر واعظ مولوی فاروق نے بھٹو کے مطالبے کی حمایت کی جبکہ شیخ عبداللہ نے بھٹو کو مقبوضہ کشمیر کے اندورنی معاملات میں دخل نہ دینے کا مشورہ دے دیاشیخ عبداللہ کا یہ مشورہ ان کو دوبارہ ریاست کا وزیراعلیٰ بنانے کا سبب بن گیا ۔شیخ عبداللہ کے اس موقف کے بعد وزیراعظم ہندوستان اندراگاندھی نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کے حالات کنٹرول کرنے کے لیے شیخ عبداللہ کو آگے لانا چاہیے ۔طویل مذاکرات کے بعد شیخ عبداللہ کے ساتھ فروی 1975میں" کشمیرا کارڈ کے نام سے معاہدہ طے پاگیا ۔شیخ عبداللہ کی کوشش تھی کہ ان کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری مل جائے لیکن جو معاہد ہ طے پایا اس کے دو اہم نکات کچھ یوں تھے۔اول ۔ریاست ہندوستان کاحصہ ہوگی اور آرٹیکل 370نافذرہے گا ۔دوئم یہ کہ ریاست کی پارلیمنٹ اگر کوئی ایسا قانون بنائے گی جس سے ریاست کی آزادی کا تاثر ملے تو ہندوستان کی پارلیمنٹ اس قانون کو کلعدم قرار دے سکے گی ۔شیخ عبداللہ 1982میں اپنی وفات تک وزیراعلیٰ برقرار رہے ۔ان کے دور میں بھی مقبوضہ کشمیر میں افراتفری مچی رہی۔کبھی بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان احتجاج کرتے تھے تو کبھی جموں کے ہندو اور لداخ کے بدھ مت شیخ عبداللہ کی حکومت کو مسلمان
بالادستی قرار دیتے ہوئے احتجاج کرتے تھے۔میر واعظ مولوی فاروق بھی شیخ عبداللہ کی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش رہے ۔1978میں پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت قائم ہونے کے بعد شیخ عبداللہ اور ہندوستان کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں الزام لگا نا شروع کر دیا کہ پاکستان سے دراندازی ہو رہی ہے ۔اس کی بنیاد بنا کر شیخ عبداللہ نے سخت قوانین بنانا شروع کر دیئے اور وہ ایک آمر کی حیثیت اختیار کر گئے۔شیخ عبداللہ کی اس روش کو مرزا افضل بیگ جو کہ نائب وزیراعلیٰ تھے اور شیخ عبداللہ کے 1931سے سب سے معتمد ساتھی تھے برداشت نہ کر سکے اور استعفٰی دے کر اپنا راستہ الگ کر لیا ۔شیخ عبداللہ کے دور حکومت میں دو واقعات پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ٹینشن کا باعث بنے ۔1978میں پاکستان اور چین نے شاہراہ قراقرم کے مکمل ہونے کا اعلان کیا جو کہ چین سے پاکستان میں گلگت بلتستان کے دشوار گزار راستوں سے گزرکر بنائی ۔ہندوستان نے اس پر کافی احتجاج اورواویلا کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ شاہراہ چین اور پاکستان نے ہندوستانی علاقے لداخ پر عسکری بالا دستی قائم کرنے کے لیے بنائی ہے ۔دوسرا واقعہ ہندوستان کا سیا چن گلیشیئر پر قبضہ تھا جس کے بعد اس بلند ترین مقام پر پاکستان اور ہندوستان کی افواج ایک دوسرے سے اب تک بر سر پیکار ہیں ۔یہ دونوں واقعات ایک الگ مضمون کا تقاضا کرتے ہیں ۔شیخ عبداللہ کبھی بھی پاکستان کا حامی نہ رہا لیکن وہ کبھی بھی ریاست کو ہندوستان میں ضم کرنے پر بھی راضی نہ ہوا ۔اس نے 1975میں وزیر اعلیٰ بننے کے کچھ عرصہ بعد یہی اعلان کیا کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کسی کے بھی غلام نہ بنیں گے نہ پاکستان کے ہندوستان کے ۔درحقیقت وہ کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر سوٹزرلینڈ جیسا سیاحت کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔شیخ عبداللہ کے بعد اس کا بیٹا ڈاکٹر فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ بنا ۔اس کے دور میں کشمیر میں پرتشدد واقعا ت میں شدید اضافہ ہو گیا ۔کچھ عرصے کے لیے گورنر جگجو من نے گورنر راج بھی لگا دیا ۔1987میں ریاست میں الیکشن ہوئے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور اندراکانگریس نے اتحادکر لیا اور دوسری طرف یونایٹڈ مسلم فرنٹ (ums)کے نام سے مسلمان پارٹیوں کا اتحاد بنا۔اس الیکشن میں زبردست دھندلی ہوئی اور اس کے خلاف احتجاج میں شدت بڑھ گئی اورمسلح جدوجہد کا نیا باب شروع ہو گیا ۔اس الیکشن کے بعد سے ایسے عناصر جو پر امن جدوجہد میں یقین رکھتے تھے اپنے اس موقف کو خیر آبا دکہنے پر مجبور ہو گئے 1987میں شروع ہونے والی مسلح کاروائیاں تقریباََ ایک دہائی تک جاری رہیں ۔کشمیر کے لوگوں کو عام طور پر امن سمجھا جاتا رہا تھا اور یہی تاثر تھا کہ وہ احتجاج بھی کریں تو جلسہ جلوس تک محدود رہتے ہیں لیکن 1972کے بعد سے آہستہ آہستہ ان کے مزاج میں شدت پسندی آتی گئی ۔ہندوستان اس سارے عمل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا رہا ہے اور کہتا ہے کہ تمام شدت پسند کاروائیاں پاکستان سے آنے والے درانداز کرتے ہیں ۔لیکن درحقیقت یہ مقبوضہ کشمیر کے عوام تھے جن کا مزاج حالات سے تبدیل ہونا شرو ع ہو گیا تھا ۔بہت بڑی تبدیلی 1984میں مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد شروع ہوئی مقبول بٹ کا ذکر ہم گنگا جہاز کے اغوا کے سلسلے کر چکے ہیں ۔اس وقت امان اللہ خان اور جہاز کو اغوا کرنے والے ہاشم خان کا ذکر بھی آیا تھا ۔یہ لوگ اس وقت برطانیہ چلے گئے تھے اور آہستہ آہستہ اور لوگوں کو ساتھ ملا کر کشمیر لبریشن آرمی کی بنیاد رکھی جو بعد میں کشمیر میں کشمیرلبریشن فرنٹ بن گئی یہ لوگ کشمیر کو آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے اور مسلح جدوجہد میں یقین رکھتے تھے 1987کے دھاندلی شدہ الیکشن کے بعد ان کی تنظیم کو بہت فروغ ملا اور اس طرح کی اور تنظیمیں بھی بن گئیں ۔بعد 1989تک اغوا قتل اور بم دھماکوں کے واقعات عام ہو گئے تھے اور ہندوستان نے بڑے پیمانے پر فوج تعینات کر دی اب کشمیر بالکل تبدیل ہو چکا تھا ۔شیخ عبداللہ کے زمانے کے ہندوستان سے الحاق کے حامی اب ناپید ہو گئے تھے ۔اور عوام اب پاکستان سے الحاق چاہتے تھے یا مکمل آزادی ۔میں 1989میں سعودی عرب میں ایک ہسپتال میں خدمات انجام دے رہا تھا اسی ہسپتال میں کشمیری پنڈت فیملی کے ایک ڈاکٹر بھی تھے ۔میں ان سے کہا کرتا تھا کہ میں جلد کشمیر سیاحت کے لیے جائوں گا ۔انہیں کشمیر کے حالات کا علم تھا اور کہتے تھے کہ اگر آپ کشمیر جانا چاہتے ہیں تو اس سال (1988)میں چلے جائیں اگلے سال حالات ایسے ہو جائیں گے کہ آپ کشمیر نہ جا سکیں گے۔
شیخ عبداللہ کا دوسرا دوراورمسلح جدوجہد کا آغاز
Oct 29, 2020