اصل قصور وار عوام ہیں 

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عمران خاں کی تمام تر کوششوں کے با وجود عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے جاسکے اور غریب عوام دن بہ دن مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تین سال کا عرصہ خاصہ عرصہ ہوتا ہے مگر بعین ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ا س ملک میں جتنی بھی حکومتیں گریں یا گرائی گئیں ان سب کے پیچھے مہنگائی بیروزگاری اور کرپشن کے سنگین الزامات کارفرما تھے،اسی بنا پر تحریکیں چلیںاور حکومتوں کے گرانے کاکھیل جاری رہامگر نہ تو کرپشن تھمی اور نہ ہی مہنگائی اور بیروز گاری کا جن قابوآسکا،کیا مہنگائی اور بیروزگاری کی ذمہ دار حکومت کے گرنے کے بعد کسی ایک بھی آنے والی حکومت میں مہنگائی کم ہوئی ؟کسی ایک حکومت میں ہماری معیشت سے جڑے ڈالر کا ریٹ کم ہوا؟پٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں ؟تو جواب ملے گا نہیںبالکل نہیں۔بلکہ ہرآنے والی حکومت میں نہ صرف مہنگائی بڑھی بلکہ کرپشن نے بھی مزید پر پرزے نکالے اوراس میں مضحکہ خیز اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ جس حکومت کو ہماری عوام نے مہنگائی اور اور حالات کی ابتری کا ذمہ دار ٹہرایا ہوتا ہے اگلا دور اتنا برا آتا ہے کہ بیچاری سادہ اور جذباتی عوام سابقہ کرپشن زدہ حکومت کوہی اچھا کہنا شروع کردیتے ہیں اور محض ایک ہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے کہ ان سے توپہلے ہی اچھے تھے اور یہی کچھ آجکل پھر سے سننے میں آرہا ہے اور یہی کچھ اگلی حکومت میں پھر سے سننے کو ملے گا کہ ان سے تو عمران خاں کی حکومت ہی اچھی تھی ہم کبھی بھی ان عوامل پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومتیں بدلیںحکمران بدلے مگر ایک نہ بدلی توہماری حالت نہ بدلی،بدلنا تو کجا روز بروز ابتری کی طرف گامزن ہے ،لہذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ سنگین حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ مہنگائی کم کرنا کسی بھی حکمران کے بس کا روگ نہیں ہوتا،بلکہ مہنگائی ،بیروز گاری کرپشن ختم کرنے کے نعرے صرف اور صرف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے عوام کو دینے کیلئے لالی پاپ اور حکومت میں آنے کے ہتھکنڈے ہوتے ہیںانکی حکومت آتے ہی یہ نعرے آنیوالی اپوزیشن کے سپرد ہو جا تے ہیں اور چوہے بلی کا یہ کھیل جاری و ساری رہتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان ایک مقروض ملک ہے اور ہم اپنی معاشی پالیسیاں بنانے میں خود مختار نہیں جسکی وجہ سے کوئی بھی حکومت اپنی مرضی سے کوئی بھی ایسی پالیسی نہیں بنا پاتی جس سے عوام کو ریلیف ملے ہماری پالیسیا ں وہ ما لیاتی ادارے بناتے ہیں جن کے آگے ہم کشکول لئے پھرتے ہیں اور قرض وہ اپنی ان شرائط پر دیتے ہیں جو انکے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں نہ کہ ہمارا،اور انکی پالیسیوں میں مقروض ملک کی عوام کی ہمدردی ہرگز شامل نہیں ہوتی لہذا سوشل میڈیا،انٹرنیٹ کے آگاہی کے اس دور میں ہمیں اس بات کا ادراک کر لینا چاہئے کہ بحیثیت مقروض قوم ہمیں ہر دور میں مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنا ہوگا،اب اگلا سوال یہ ہے کہ اگر مہنگائی کو روکنا کسی بھی حکمران کے بس کا روگ نہیں تو پھر تو کسی بھی حکمران کو مہنگائی کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جا سکتا،سب حکمران ان الزامات سے مبرا ہیں تو جواب ہے نہیں ،حکمران کسی طور پرمبرا نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کو اگر ایک طرف بھی رکھیں تو کسی بھی حکومت کی سب سے بڑی نا اہلی یہ ہو تی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں نہیں بنا پاتی جس سے بڑہتی ہوئی مہنگائی کا بوجھ غریب اور کم آمدنی والے لوگوں پر کم سے کم پڑے اور سب سے اہم یہ کہ بڑے بڑے مافیاز کو قابو کرنا حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ،مگر یہاں تو الٹی گنگا ہی بہتی رہی ہے اور بہہ رہی ہے کہ الٹایہ مافیاز کسی نہ کسی طرح ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔عوام کی کمر پہ کوڑے برساتی روزافزوں بڑہتی مہنگائی کے باوجودحکمرانوں کی عادتیں بدلی نہ انکے اللے تللے ختم ہوے، انکے طور و اطوار بدلے نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور شاہی پروٹوکول ختم ہوا غریبوں کے یہ ہمدرد جتنی مرتبہ بھی حکومتوں میں آئے ان کا طریقہ واردات وہی رہا رتی بھر فرق نہ آیاان سب کے دلوں میںغریب کا درد صرف اسی وقت ٹیسیں مارتا ہے جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور جب یہی لوگ حکومت میں آجاتے ہیں تو انکے اپنے لئے تو ملکی خزانوں کے دروازے کھل جا تے ہیں مگر مفلس و لاچار عوام کیلئے انہیں دنیا میں مہنگائی کی لہریں ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ْقرضوں کی مجبوریاں یاد آجاتی ہیں۔اب تو ایسا لگتا ہے کہ یہ حکمران بیچارے تومجبور و بے کس ہیں اصل قصور ہمارا ہے ہم ہی وہ گنہہ گار ہیں جوباربار انکے جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
رسول پاک ؐارشاد ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاسکتا۔،ہمیں اپنی سیاسی سوچ کا رخ بدلنا ہوگاورنہ تبدیلی ایک خواب تھا اور خواب ہی رہے گااور اس کے اصل قصور وار ہم عوام ہی گردانے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...