کتنے شہیدوں نے اپنی جان کانذرانہ دیکر دھرتی کو گل وگلزار کردیا ۔کتنے حق پرست اپنے عزم میں ڈٹے رہے یہی سچائی کا قانون ہے۔ روشنی کا راستہ ہمیشہ اندھیرے سے گزر کر ملتا ہے۔ جس طرح صبح صادق رات کی ظلمتوں کالبادہ چیرکراجالے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور ہرچیز کومنور کردیتی ہے ۔ایک بالک نے گروسے پوچھاکہ سچائی کیا ہے گرو نے کہا جوتیرے دل پردستک دے۔ ہم انسانوں نے جب سے دلوں کومقفل کرلیا نہ کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے نہ دستک اور اب تو ہم تاریکی اور اجالے کے درمیان تمیز بھی کھو بیٹھے ہیں۔ اشفاق احمد سے کسی نے سوال کیا اندھیرے اور اجالے اور سچ اور جھوٹ میں فرق کا پیمانہ کیا ہے اشفاق احمد نے کہا یہ تیرا نہیں تیرے دل کا کام ہے ۔ انہوں نے اپنے پروگرام زاویہ میں ایک واقعہ سنایا کہ ہمارے ساتھ ایک شخص بھرتی ہوا وہ اپنے کام میں مگن رہتا جو شخص اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا ہے اسکے خلاف بہت جلد باتیں ہونے لگتی ہیں ۔چنانچہ باس تک شکایات پہنچنے لگیں لیکن وہ فورا غلطی کی اصلاح کرتا ۔وہ کام کو جہاد سمجھ کرکرتا تھا لہذا باس کی نظر میں جگہ بناتا گیا ۔ پھر ایکدن ہمارا ٹرپ کسی پرفضا مقام پرگیا ۔ایک صاحب اپنے ساتھ کوئی بارہ سال کے لگ بھگ بچہ لے کر آئے تھے وہ پانی میں گرگیا اور ڈوبنے لگا اسکے والد تیرنا نہیں جانتے تھے انہوں نے ادھر ادھر مدد کے لئے پکارا وہی شخص پانی میں کود پڑا اور بچے کو تو بچا لیا لیکن ایک پانی کاریلا اسے بہا کر لے گیا۔ اسکو خدا نے شاید اسی کام کے لئے بھری کیا تھا۔ آج میں اس واقعہ کے بعد سوچتی ہوں کہ ارشد شریف کو اللہ نے حق کے لئے بھرتی کیا تھا وہ دل کی سنتا تھا کیونکہ اسکا دل حق کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ جب دل حق کے ساتھ خالص ہوجائے تو دماغ کی کہاں سنتا ہے، دنیاوی لالچ اور خواہشات بے وقعت ہوجاتی ہیں۔ ہم دولت ،اقتدار اور ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگنے والے لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور حق اور سچ کی روشنائی سے ڈرنے لگتے ہیں ۔بقول ن ۔م راشد
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو ، روشنی تو ہم بھی ہیں
اس سے تم نہیں ڈرتے آ گہی سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے
تاریخ کے صفحوں نے کتنی صداقتوں کو چھپا رکھا ہے ابن زبیر اپنی والدہ کے پاس آئے اور اپنی مشکلات کاذکرکیا والدہ نے فرمایا بیٹا اگر تمھیں یقین ہے کہ تم حق پر ہو تو جاؤ لڑو تم سے پہلے کتنے لوگ آئے جنہوں نے اپنی جانیں دیں۔ حق کے لئے جان دینا اس زندگی سے ہزارہا سال بہتر ہے۔ جب سے ہم نے ذاتی مفادات کا لبادہ اوڑھا ہم وسوسوں میں گھرگئے اپنے ارد گرد سیکیورٹی بڑھا لی بے خوابی کے لئے سلیپنگ پلز استعمال کرنے لگے اور بھول گئے کہ زندگی اور موت رب کے ہاتھ میں ہے۔
اک مسافر کے سفر جیسی ہے ساری دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
ارشد شریف بھی حق اور صداقت کا علم اٹھائے تن تنہا لڑتا رہا اسکی شہادت پر اپنی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رد عمل کا اظہار کیا گیالیکن بڑے حوصلے اور دلیری کے ساتھ اسکی والدہ نے کہاکہ اس سے پہلے میں نے دوشہید قبر میں اتارے اب ارشد شریف شہید ہوگیا ۔ ارشد شریف تو ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا لیکن ہم مردہ ضمیر اپنی سفاکیت کو ساتھ لئے ایک مردہ زندگی جی رہے ہیں ۔
جس طرح بیشمار جھوٹ اور منافقتوں کے درمیان سچ تلاش کرنا مشکل ہے اسی طرح ظلمتوں کے درمیان انصاف بھی مشکل۔ لیاقت علی خاں سے لیکر اب تک جو بھی اندھے قتل ہوئے آج تک انکے قاتلوں کا سوراخ نہ مل سکا ۔ارشد شریف کے قتل پر بھی جوڈیشل کمیشن بنیں گے کمیٹیاں بنیں گی اور پھر یہ معاملہ بھی باقی معاملات کی طرح کھٹائی میں پڑجائیگا بقول شاعر
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہرنے پہنے ہوئے ہیں دستانے
سقراط کو زہرپلایاگیا ۔وہ مثالی ریاست کاخواہاں تھا۔ بقراط کو سولی چڑھایاگیا کیونکہ وہ فسطائیت کے خلاف تھا ۔اسی حق اور سچ کے لئے کتنے لوگوں کو بادشاہوں نے ہاتھی کے پاؤں تلے روندوا دیا ،کھالیں کھنچوائیں ۔سب بادشاہ مٹ گئے لیکن سچ پوری آب وتاب سے زندہ رہا ۔کتنے مقبرے ویران پڑے ہیں، جوسمجھتے تھے ہمارا اقتدار کبھی زوال پذیر نہیں ہوگا۔
پاکستان ان چھ ممالک میں سے ایک ہے جہاں صحافیوں کو سکیورٹی کے خدشات لاحق ہیں۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ۔ یہ اتنا بڑاجرم نہیں کہ وطن سے بے وطن کیا جائے۔ سزائیں دی جائیں یا راستے سے ہٹادیا جائے یا زبان بندی کی جائے۔ بقول شاعر
پہلے بھی تو گزرے ہیں دور نارسائی کے
بے ریا خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو۔ہیچ آرزومندی
یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی
لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
راہ کانشاں بن کے
نورکی زباں بن کے ہاتھ بول اٹھتے ہیں
صبح کی اذاں بن کے
ماضی کے جھروکوں سے شہادت کی کہانیاں مستقبل کے اندھیروں کو جگمگاتی ہیں اور یہ سندیسہ دیتی ہیں کہ شہید چاہے وطن پرقربان ہو یاکہ اصولوں پر یا ظلمتوں سے لڑتاہوشہید ہو اسکی شہادت سے قوم کو حیات ملتی ہے اوردھرتی سیراب ہوتی ہے۔