چین کی اہم ترین نیشنل کانگریس کا بیسواں اجلاس خوش اسلوبی سے مکمل ہوگیا۔ چین در حقیقت اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے کہ جیسا دور اس نے انقلاب چین کے وقت دیکھا تھا۔ اس وقت یہ سوال درپیش تھا کہ چین کے لیے وہ کون سا راستہ اختیار کرنا مناسب ہوگا کہ جس سے چینی شہری پسماندہ زندگی کو ماضی کا حصہ بناتے ہوئے ترقی یافتہ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔
چین نے چیئرمین ماؤ کی قیادت میں اپنا راستہ چن لیا اور اس انقلاب کو دوام بخشنے کی خاطر ضروری تھا کہ چین میں قیادت کا تسلسل قائم رہے۔ لہذا چیئرمین ماؤ کی قیادت میں چین آگے کی جانب بڑھتا ہی چلا گیا۔ اب آج کے دور میں سوال یہ ہے کہ چین نے جو معاشی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کامیابیوں کا تسلسل کیسے قائم رکھا جا سکے اور اس تسلسل کو برقرار رکھنے کی غرض سے ضروری تھا کہ چین میں قیادت کا تسلسل برقرار رہے تاکہ معاملات کو مزید خوش اسلوبی سے مکمل کیا جا سکے۔بیسویں نیشنل کانگریس میں صدر شی نے اپنی رپورٹ اور،تقریر میں جن نکات کو واضح طور پر ذکر کیا ہے وہ نکات کا نا صرف چینی عوام کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ انہوں نے چین کی اقتصادی کامیابیوں کے ثمرات دنیا کی ان قوموں تک پہنچانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے جو اقوام ابھی تک مکمل طور پر یا ان کا ایک بڑا حصہ پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ میرا اشارہ اس جانب ہے کہ انھوں نے انسانی قوم کی ایک ایسی تشکیل کا نظریہ پیش کیا ہے جو کہ مشترکہ مستقبل کی حامل ہو یعنی کہ جس سے ایسی معاشی سرگرمیوں وجود میں آئیں جو کہ ساری انسانیت کی فلاح کا باعث ہوں اور ان کے معیار زندگی کو غیر انسانی سطح سے بلند کرکے انسانی سطح تک لے کر آ یاجائے ۔ یہ آج کے دور میں بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی بھی اقتصادی بلاک تن تنہا انسانیت کو درپیش خطرات سے نبرد آزما ہونے کی استطاعت سے عاری ہے۔ اسی لئے صدر شی نے دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ مل کر مشترکہ مستقبل کا تصور پیش کیا ہے۔ خیال رہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار میں غربت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے اور دنیا کے سامنے اس حوالے سے ایک رول ماڈل پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے بیسویں نیشنل کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے ماڈریٹ ویلتھ کا نظریہ پیش کیا ہے یعنی دولت صرف چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس دولت کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات حاصل کرسکے اور پسے ہوئے طبقات ماضی کا قصہ بن جائیں۔
صدر شی نے چین میں اس نظریہ کو مزید فروغ دیا ہے کہ ریاست کی سطح پر جو کچھ بھی ہو وہ پیپلز سنٹرڈ کانسپٹ کے تحت ہونا چاہئے۔ اس تصور کی کامیابی کے بعد مشترکہ مستقبل کا تصور پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چین اپنے عالمی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی ہے اور وہ دنیا کے ساتھ مل کر ان ذمہ داریوں کو نبھانا بھی چاہتا ہے۔ صدر شی کی سوچ میں یہ واضح ہے کہ انسانیت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ دنیا میں گورننس کی بہتری ہوگی تو سوچ میں بہتری ہوگی اور دونوں مقاصد کو حاصل کر لیا جائے تو ایسی صورت میں دنیا میں امن و خوشحالی کی سوچ پروان چڑھے گی اور اس سوچ کو حقیقت میں تبدیل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکیں گی۔ ہمارے سامنے یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کی مانند صرف اس موضوع پر اچھے اچھے بھاشن ہی نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کی قیادت اس کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے پہلے ہی میدان عمل میں آ چکی ہے۔اس حوالے سے تین پروگراموں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بی آر آئی ایک ایسا منصوبہ ہے جو دنیا بھر میں مختلف اقوام کو معاشی بندھنوں میں باندھ دینے کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔ وطن عزیز پاکستان بھی بی آر آئی کے منصوبے سی پیک سے بہرہ مند ہو رہا ہے جبکہ ابھی اس حوالے سے بہت کچھ حاصل کرنا باقی بھی ہیں۔ اسی طرح ہم جی ڈی آئی کا تذکرہ کر سکتے ہیں کہ جو مختلف انداز میں دنیا بھر کی ترقی میں اپنا بھرپور فعال کردار ادا کر رہا ہے ۔ جی ایس آئی بھی اس حوالے سے دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود ہے۔ ان تین پروگراموں کے ساتھ ساتھ اگر ہم چین کے برکس اور ایس سی او میں مثبت کردار پر نظر ڈالیں تو یہ ہمارے سامنے واضح ہوگا کہ چینی قیادت صرف باتیں نہیں بناتی ہے بلکہ عملی طور پر اپنے الفاظ کے ساتھ کھڑی ہے اور اس پر پہرا بھی دے رہی ہے۔ بیسویں نیشنل کانگریس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ چین ان ہی بنیادوں پر دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اپنی عالمی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے گا۔
بیسویں نیشنل کانگریس کے معاشی اثرات
Oct 29, 2022