پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں زراعت کا شعبہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان کی معیشت مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کاتقریباً 20 فیصد زراعت پر منحصر ہے اور ملک کی کل افرادی قوت کا تقریباً 43 فیصد حصہ اس پیشے سے وابستہ ہے جن میں سے زیادہ تعداد چھوٹے کسانوں کی ہے۔ اس سب کے باوجود بدقسمتی سے پورے ملک میں کسان موسمیاتی تبدیلیوں، ناقص حکومتی پالیسیوں اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیںاور حکومتی ایوانوں کی خاطر خواہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے رہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب اور مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں 80 لاکھ ایکڑ سے زائد کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہ ہو چکی ہیں اور اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی اور بڑی تعداد میں گندم کے ذخائر ضائع ہوئے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے امورِ انسانی (یو این او سی ایچ اے) نے عندیہ دیا ہے کہ تقر یباً 57 لاکھ سیلاب زدگان کو اگلے تین ماہ میںخوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جنوبی پنجاب اورصوبہ سندھ کے60 فیصد زیر کاشت رقبے پر پانی کھڑا ہے اور یہ اضلاع گندم اور کپاس کی کاشت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے کیونکہ بوائی کے فوری بعد مسلسل بارشوں، موسمیاتی تبدیلیوںاور کی سنڈیوںکے حملوں کی وجہ سے یہ فصل پیداواری ہدف نہیں حاصل کر پارہی ۔ صوبہ بلوچستان کے تقریباً7 لاکھ ایکڑ رقبہ ایسا ہے جس پر کاشت نہیںہو سکتی ان سیلاب زدہ علاقوںکے کاشتکار محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں لیکن ابھی تک ان کسانوں کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف یا امدادی پیکیج کا علان نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ وسطی پنجاب کے علاقے جن میں اوکاڑہ،ساہیوال، دیپالپور،پاکپتن، عارف والا اور بہاولنگر وغیرہ میں نہروں کی غیر علانیہ بندش کی وجہ سے فصلوں کی بروقت کاشت میں مسائل پیش آرہے ہیں۔ زرعی ادوایات اور بیجوں کی قیمتوں میں اضافہ کسانوں کے لیے الگ مسائل پیدا کررہا ہے اور پیداواری لاگت آمدن سے زیادہ ہے۔
کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کسان اتحاد نے گاہے گاہے اس حوالے سے کوششیں کرتی رہتی ہے اور احتجاج ریکارڈکرواتی رہتی ہے۔ رواں سا ل ماہ ستمبر سے کسانوں کے منظم احتجاج کے سلسلوںمیں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب اچانک یوریاکھاد کی عدم دستیابی اور ٹیوب ویل بجلی ٹیرف میں 400 فیصد ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ پنجاب کے تقریباً 25 ہزار کسان زرعی ادوایات ، کھاد ، بیج،اورڈیزل، ٹیوب ویل کے بجلی ٹیرف میں اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے اور اسلام آبادڈی چوک کا رخ کر لیا۔
کسان اتحاد کا یہ مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طوراس اضافے کوواپس لے اور کھاد ، ڈیزل پر فوری طور پر سبسڈی اورگندم کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔ علاوہ ازیں، بجلی کے بلوں کی مد میں زائد وصول ہونے والے محصولات کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ زرعی اجناس کا پہلے سے طے شدہ ریٹ نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں میں بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ گندم کی طرح دوسری زرعی اجناس کے بھی نرخ مقرر کر دیے جائیں تاکہ مقررہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جاسکے ۔ زرعی آلات ، ٹریکٹرز کی قیمتوںمیں روز بروز اضافے کی وجہ سے زرعی آلات اور مشینری چھوٹے کسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ ملک میں یوریا کھاد کی بلیک میں فروخت بند کر کے اس کی آسان فراہمی یقینی بنائی جائے اور گنے کی امدادی قیمت مقرر کرکے شوگرمل مالکان سے واجبات ادا کروائے جائیں۔
اس سلسلے میں کسان اتحاد کے ایک وفد نے وزیراعظم محمد شہباز شریف سے ایوانِ وزیراعظم میں ملاقات کی جس میں انھوں نے ان مسائل کے فوری حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دیدی۔ 19اکتوبر کو وزیراعظم نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے ایک میٹنگ کی صدارت کی جس میں آٹھ سب کمیٹیزتشکیل دیں گئی ہیں جن کے آئندہ آنے والی فصلوں سے پہلے اہداف مقرر کر دیے گئے۔ ان کمیٹیز کوآبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے، گندم اور کپاس کی پیداوار بڑھانے، یوریا اور ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کے حوالے سے سفارشات تیار کرنے اور کسانوں کوآسان شرائط پر قرضہ جات فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
مزید یہ کہ حکومت جو رقم چینی اور گندم کی درآمد پر صرف کر رہی ہے اگر وہی رقم کسانوں کوسبسڈی کی مد میں پیشگی ادا کر دی جائے تو مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جن کے ذریعے کسانوں کو ریلیف ملے تاکہ زراعت کا شعبہ خود انحصاری اور ماحول دوست زرعی پیداوار کو یقینی بنا سکے کیونکہ زراعت کے بغیر نہ توصنعتوںکا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ ہی مقررہ شرح نمواور ترقی اور خوشحالی کے پیرامیٹرز پر عمل درآمد ممکن ہے۔
٭…٭…٭