chohdary2005@gmail.com
سی ڈی اے نے 135 ٹیوب ویل بھی نصب کر رکھے ہیں
وفاقی دارالحکومت میں پینے کے پانی کا مسئلہ گرمیوں میں شدت اختیار کر جاتا ہے
پانی کی طلب و رسد میں فرق کو دور کرنے کیلئے ٹیوب ویلز سے کمی دور کی جاتی ہے
چوہدری شاہد اجمل
پانی تک رسائی خواہ وہ پینے ،اپنے بدن کو صاف کرنے ،کھانا پکانے یا اپنی فصل کو اُگانے کے لیے ہو، انسانی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت جلد پانی کی بہت بڑی قلت کا شکار ہونے والا ہے،اگرفوری طور پر پا نی کے نئے ذخائر تعمیر نہ کیے گئے تو پاکستان کو آنے والے دنوں میں پا نی کے شدید مسائل کا سامنا ہو گا ۔اس وقت ملک کے شہری علاقوں کو پا نی کے شدید مسائل کا سامنا ہے ،وفاقی دارالحکومت کو بھی پا نی کی شدی کمی کا سامنا ہے ۔اسلام آباد کے عوام کو پانی مہیا کر نے کے دوڈیم بنائے گئے ہیں ایک ڈیم اسلام آباد کے اندر سملی ڈیم اور دوسرا خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کی تحصیل خان پو ر میں خان پور ڈیم ہے اس کے علاوہ راول ڈیم سے بھی اسلام آباد کو پا نی سپلائی کیا جا تا ہے تاہم اس ڈیم کا زیادہ تر پا نی راولپنڈی کے حصے میںجاتاہے،سی ڈی اے نے 135ٹیوب ویل بھی نصب کر رکھے ہیں،جہاں سے پانی پائپ لائنوں اور ٹینکرز کے ذریعے اسلام کے مختلف سیکٹرز اور کمرشل ایریاز کو فراہم کیا جا تا ہے۔اس کے باوجود اسلام آباد میںہمیشہ پا نی کی کمی رہتی ہے۔ خان پور ڈیم سے اسلام آباد کو روزانہ8ملین گیلن پا نی سپلائی ہو تا ہے،راول ڈیم سے 2ملین گیلن،سملی ڈیم سے50ملین گیلن پا نی روزانہ کی بنیاد پر سپلائی ہو تا ہے،اسلام آباد کے لیے پانی کی طلب120ملین گیلن روزانہ ہے لیکن ڈیموں سے پا نی کی سپلائی80ملین گیلن ہے ۔پانی کی طلب اور رسد میں فرق کو ٹیوب ویلز کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،خصوصا گرمیوں کے موسم میں اسلام آباد کے شہریوں کے لیے پانی کی فراہمی سب سے بڑا مسئلہ ہو تا ہے جس کیلئے میں سی ڈی اے کی جانب سے پانی فراہم کر نے والے ٹینکرز بھی شہریوں کے لئے پانی کی ضرورت پوری نہیں کر پاتے ۔سی ڈی اے کے ٹینکرز سے پا نی لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا اور دوسری جانب پرائیویٹ ٹینکرز مافیا کی چاندی ہو جاتی ہے جو پا نی کے ایک ٹینکر کی قیمت کئی کئی ہزار روپے وصول کرتے ہیں اور شہری مجبوری کے تحت نہ صرف یہ رقم ادا کرتے ہیں بلکہ اس ٹینکرز مافیا کی منتیں بھی کرتے ہیں،پانی کی فراہمی کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل اسلام آباد کے نواحی علاقوں کے ہیں جہاں اسلام آباد کی انتظامیہ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتی ہے کہ یہ علاقے سی ڈی اے کے تحت آتے ہی نہیں ۔ ملک میں ہو نے والی مردم شماری کے نتا ئج پر نظر ڈالی جائے تو اسلام آباد وہ شہر ہے جس کی آباد ی میں سب سے زیادہ اضافہ ہو اہے ،آبادی میں اس اضافے کی وجہ دوسرے شہروں سے روزگار کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت کا رخ کر نے والے افراد کا یہاں بس جا نا ہے ۔اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں بسنے والی آبادی کا پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی پرسان حال نہیں ہے ،لوگ زیر زمین بورنگ کے ذریعے یا ٹینکرز مافیا سے پا نی خریدنے پر مجبور ہیں ،اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے اسلام آباد شہر اور اس کے گردو نواح کی آبادی کو صاف پا نی کی فراہمی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ۔بورنگ کے ذریعے پا نی حاصل کر نے کا سلسلہ عام ہے کیو نکہ پا نی زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہے ۔اسلام آباد میں بورنگ پر لاکھوں روپے خرچ آتا ہے اور اگر کچھ عرصہ تک بارش نہ ہو تو بور کی سطح بھی خشک ہو جاتی ہے ،اسلام آباد میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں نے لاکھوں روپے خرچ کر کے پانی کے لیے بورنگ کرائی لیکن چند ماہ کے بعد بورنگ خشک ہو گئی اور اس سے پا نی آنا بند ہو گیا ،اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے زیر زمین بور کے ذریعے نکالے جا نے والے پا نی کو ٹیسٹ کر نے کا بھی کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے اسلام آباد کی آبادی ہیپاٹائٹس سمیت کئی بیماریوں کا شکا ر ہو رہی ہے۔انتظامیہ کی طرف سے گھروں کے اندر بارش کے پا نی کو جمع کر نے کے حوالے سے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے جب بارش ہو تی ہے تو ہزاروں لیٹر پا نی نالوںمیں بہہ جاتے سے پا نی کی شدید قلت ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد میں بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے منصوبے شروع نہ کیے گئے تو چند سالوں میں یہاں پا نی کی شدید قلت ہو جائے گی ۔
اسلام آباد کو پینے کی صاف فراہمی کے لیے غازی بروتھا نہر سے پائپ لا ئن بچھانے کاایک منصوبہ2003ء میں شروع کیا گیا تھا جس پر ابھی تک کوئی کام نظر نہیں آتا ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس منصوبے پر کام کر لیا جا تا تو اسلام آباد اور راولپنڈی کو کبھی بھی پا نی کا کمی کا سامنا نہ ہو تا۔سی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ غازی بروتھا سے پا نی کی سپلائی کا منصوبہ ایکنک سے منظور ہو چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے فنڈز مختص نہ کر نے کی وجہ سے اس پر کام شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں پا نی کی کمی بہتر حکمت عملی اپنانے سے پوری کی جاسکتی ہے اس کے لیے فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے، حکومت نے نئے ٹیوب ولز تو لگا دیے ہیں پر اگر زیر زمین پانی ہی ختم ہو جائے تو ان ٹیوب ولزسے کون سا فائدہ حاصل کیا جا سکے گا کیونکہ زیرزمین پانی میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی کسی خشک سالی سے کم نہ ہو گی۔