” زراعت کا معاشی قتل“


ایک دن اسلام آباد میں نوائے وقت ہاﺅس جانا تھا ۔ جتنا وقت مری سے اسلام آباد آنے میں صرف ہوا اس سے زیادہ وقت زیرو پوائنٹ پہنچنے پر خرچ ہو گیا۔ جس بھی شاہراہ سے جانے کی کوشش کی پتہ چلا کہ رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کیا ہوا ہے ۔ پتہ چلا کہ ریڈ زون میں کاشتکاروں نے دھرنا دے رکھا ہے دوست نے تھک ہار کر گاڑی ایک شجر سایہ کے نیچے کھڑی کی اور میں پےدل دفتر روانہ ہو گیا۔ 
ملک بھر سے کاشتکار، زمیندار اور ان کی متحدہ تنظیموں نے آٹھ دن تک دھرنا دےئے رکھا ۔ یہ دھرنا زمینداروں اور کاشتکاروں کے نمائندہ خالد باٹھ کی قیادت میں ہوا۔ اس سے پہلے کسانوں کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں وہ متحد نہیں تھیں مگر وفاقی حکومت جس میں درجن بھر سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں ہیں ۔ اس طرح شدید اختلافات کے با وجود کسان مکاو¿ پالیسی نے تمام تنظیموں کو جو کہ ایک دوسرے کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں وہ سب متحد ہو گئیں۔ بلاشبہ یہ سارا کریڈٹ پی ڈی ایم کو جاتا ہے ۔تمام متحارب تنظیمیں یک جان دو قالب ہو گئیں۔ یہ تفصیلات اگر مےرے دوست ہم جماعت اور مہربان حاجی ثنا ءاللہ چوہدری جو کہ ضلع قصور کی انجمن کاشتکاران کے صدر ہیں وہ اتنے متحرک اور کسان کو درپےش مسائل کے حل کےلئے دوستوں اور بعض اوقات اہل و عیال کی بھی ناراضگی مو ل لے لےتے ہیں۔ ایک نہیں متعدد بار اپنے آبائی گاو¿ں جانے کے بعد واپسی پر آتے ہوئے برادرام حاجی ثنا ءاللہ کے ملے بغیر واپس نہیں آتا کیونکہ ان سے اور ان کے خاندان سے اےسے مراسم ہیں جن پر نہ صرف میں فخر کرتا ہوں بلکہ تمام دوست حوالہ بھی دےتے ہیں ۔ برادرم ثنا ءاللہ چوہدری کے کزن مےجر رفیع ایسا تا بندہ ستارہ تھا جو کہ ملک و ملت کی خدمت میں اور اپنے عظیم فرض کی ادائیگی کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے ہم اور ان کا خاندان اےسے سپوت سے محروم ہو گیا۔ مرحوم کی کتاب ” مکہ کی سرد جنگ“ ایسا کارنامہ ہے کہ جو اسے مدتوں زندہ رکھے گا اور پھر میجر رفیع نے دوران سروس سرکار اور فوج کا ایک روپیہ خرچ کےے بغیر زمینداروں کو دفاع کےلئے اپنے اور پورے گاو¿ں شیخ عماد کہنہ (قصور) کے کسانوں نے کئی روزتک اپنے ذاتی ڈیزل پر ٹریکٹر بارڈر پر لے گئے اور سیلاب کی روک تھام کےلئے اتنی اونچی دیوار کھڑی کر دی جو کہ دفاع کےلئے بھی ” دیوارِ چین“ کی مثال ہے ۔ فوج میں ایک ایک لمحے اور بالخصوص اسی جری ،دلیر، باکردار خوش اطوار شخصیت مےجر رفیع صاحب کو قیامت تک اس کا اجر و ثواب ملتا رہے گا ۔ اس سے قبل دو دفعہ بھارت کی طرف سے جان بوجھ کر وافر پانی کے بند کھلنے پر سیلاب آتے رہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ضلع قصور کے دیہی علاقے جو کہ بھارتی بارڈر کے قریب ہیں وہاںپر زمین کی قیمتےں اتنی گر گئی تھیں کہ بعض علاقوں میں لوگ مفت زمین بھی کاشت کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ مگر میجر رفیع صاحب کنٹرول لائین اور دریا کے ایک کنارے پر اس قدر اونچی دیوار تعمیر کروا دی کہ اب وہ دفاعی دیوار کےساتھ ساتھ سیلاب کی روک تھام کے لئے ایک قلعے کی دیوار بن گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میجر رفیع اور ان کے خاندان کے لوگوں حاجی ثناءاللہ اور چوہدری افضل کو ملے بغےر وہاں سے گزرنا جرم تصور کرتا ہوں۔
مجھے جو تفصیلات ثناءاللہ چوہدری نے بتائیں کہ کس طرح وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مجبور ہو کر زمینداروں کو وزیر اعظم ہاو¿س بلا کر مذاکرات کےے اور اربوں روپے کی سبسڈی دے کر زمینداروں پر لٹکی ہوئی مہنگائی کی تلوار کو ہٹانے کا وعدہ ۔ کھادوں ، سپرے اور بجلی کی فی یونٹ میں اضافے کو واپس لےنے کا جو خوش آئندہ وعدہ کیا تھا ان میں سے کسی ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس میں ایک فیصد بھی شک نہیں ہے کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتی ہے اور ملکی معیشت کی ترقی بھی زراعت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ یہ آج کا نہیں مدتوں سے رونا ہے کہ زرعی زمین کی زرخیزی کو بھٹوں میں ڈال کر جلایا جا رہا ہے اور زرعی زمین سکڑ رہی ہے ۔ شہری علاقوں میں پراپرٹی سے وابستہ لوگوں نے یہ خیال رکھے بغےر کہ گندم، چاول ، گنا، ہلدی، آلو اور دیگر فصلوں کی جگہ پر پلازے اور ہاو¿سنگ سوسائٹیاں اگ رہی ہیں جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
فی الحال گئے گذرے حالات میں بھی جو لوگ زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ ملک اور ملکی معیشت کو بھرا رکھنا چاہتے ہیں انہیں کیوں مایوسی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں سابقہ حکومت (عمران دور) میں زمیندار بہت خوش تھے مگر منصوبوں اور شاہراہوں کا جال پھےلانے کا کریڈٹ اور ایک شاندار ریکارڈ رکھنے والی پارٹی یا حکومت معرض وجود میں آئی تو کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں مہنگائی کی وجہ سے چیخیں نہ سنائی دے رہی ہوں اور انتخابات کے التوا کی ایک وجہ یہی ہے کہ موجودہ اتحادی اپنی سیاسی ساکھ کے ساتھ مقبولیت کھو چکے ہیں ۔ وہ اس انتظار میںہیں کہ کسی طرح انہیں کچھ وقت مل جائے کہ وہ مہنگائی کو کم کر سکیں اور اپنی ساتھ کو دوبار ہ عوام میں بحال کریں۔ ثنا ءاللہ چوہدری کے بقول زمینداروں اور کسانوں کی تمام تنظیموں کے قائدین دوبارہ دھرنے کےلئے پر تول رہے ہیں ۔ اس سے قبل کہ وہ کشتیاں جلا کر اسلام آباد آئیں۔ پوری ملکی معیشت کے سب سے بڑے ستون (زراعت) کو گرنے سے بچائیں۔

ای پیپر دی نیشن