مہنگائی کا جواز: برطانوی وزیراعظم لٹررس کا استعفٰی 

Oct 29, 2022


بظاہر یہ عام سی خبر تھی مگر ہے غیر معمولی....! 45 دن اقتدار میں رہنے کے بعد مہنگائی نہ کنٹرول کرنے کے جواز پر برطانوی وزیراعظم لٹررس اپنے عہدے سے مستعفی ہوگی۔ 25 اکتوبر کو بھارت نژاد رشی سونک نے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے سامنے آئے ۔لندن میں ان کی ملاقات بادشاہ شہزادہ چارلس سے بھی ہوگئی ان کا بیان دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنا جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ اگلی نسل کو قرض کے بوجھ تلے چھوڑکر نہیں جائیں گے۔ بعض لوگ ابھی بھی یہ خیال کررہے ہیں کہ اگر ملکہ برطانیہ زندہ رہتیں تو لزٹرس کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اِس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ ملکہ الزبتھ دوم کی ڈیتھ کے دس دن کے بعد ہی ا±نہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ ایسے خیالات یقیناً کسی قدامت پسند کے ہی ہو سکتے ہیں جن کی وہ نمائندہ ہی نہیں لیڈر تھیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ بات کس قدامت پسند نے ا±ڑائی ہے۔عین ممکن ہے کہ یہ بات ا±ن کی مخالف جماعت نے ہی اَز خود ا±ڑا دی ہو۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ملکہ برطانیہ کے بعد لِز ٹرس کی مشکلات ا±س وقت شروع ہو گئی تھیں جب 23 ستمبر کو ا±ن کے منتخب کردہ پہلے وزیر خزانہ نے مِنی بجٹ پیش کیا تو برطانیہ کے بازار حصص اور معیشت میں کھلبلی مچ گئی۔ ا±نہیں پہلا منی بجٹ پاس کرانے میں بے حد مشکلات کاسامنا کرنا پڑا تھا اور آخر کار ا±نہیں اپنے وزیر خزانہ کو عہدے سے ہٹانا پڑا تھا۔اِس کے بعد سے کنزرویٹِو پارٹی میں بے چینی کا عنصر بہت بڑھ گیا تھا اور پارلیمانی پارٹی میں غم و غصے کی شکل نظر آنے لگی تھی اورا±ن کے لئے لِز ٹرس کا دفاع کرنامشکل تر ہوتا گیا۔ یہ چونکہ برطانیہ ہے اِس لئے ایسی باتیں قابل غور اور اہم تصور کی جاتی ہیں ورنہ پاکستان جیسے ملک میں اگر ایسا کچھ ہوتا تو نہ کسی وزیراعظم کی کرسی جاتی اور نہ ہی وزیر خزانہ کی۔حتٰی کہ کسی کلرک تک کو بھی ہٹانے کی زحمت نہ کی جاتی۔اِس ساری صورتحال میں تمام خرابیوں اور مسائل کا سامنا تو گزشتہ12 سال سے برسر اقتدار جماعت کنزرویٹو پارٹی کو ہی کرنا پڑا ہے جبکہ تمام تر فائدہ حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کو ہوا ہے۔اِسی لئے تو لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر سٹارمر نے فوراً نئے انتخابات کرانیکا مطالبہ کیا ہے۔ لیبر پارٹی2010 میں گورڈن براو¿ن کی شکست کے بعد اقتدار سے نکل گئی تھی اِس کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے وزرائے عظم ہی برطانیہ کانظام حکومت چلاتے رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ کو اِس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ا±س میں برطانیہ اکیلا نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں کم و بیش یہی مسائل درپیش ہیں۔اِس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کنزرویٹِو پارٹی کسی نئے رکن کی سربراہی میں یکجا ہو سکتی ہے یا نہیں اور کیا حکمران جماعت نئے عام انتخابات سے بچ سکتی ہے؟ لِز ٹرس ایک قابل اور فائٹر مزاج کی خاتون تھیں اور اکثر لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ مارگریٹ تھیچر کے بعد وہ دوسری آئرن لیڈی ثابت ہونگی۔10 ڈاو¿ننگ سٹریٹ کے باہر لِز ٹرس کے خطاب کے بعد دنیا بھر میں یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کی گئی۔اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ لِز کی کامیابیاں ہی دیکھی تھیں ناکامی نہیں۔
یہ درست ہے کہ انگلستان میں سرکار کی تبدیلی سے ہمیں کیا لینا دینا لیکن ہم اصول پسندی اور عوام دوستی کو تو زیر بحث لاسکتے ہیں۔ آفریں ہے خاتون ی وزیراعظم لٹررس پر جنہوں نے اپنی رعایا پر پڑنے والا مہنگائی کا بوجھ محسوس کیا اور خود کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے خود ہی اپنی سزا تجویز کی اور یہ سزا اقتدار سے باعزت رخصتی کی قیمت تھی ۔اب ذرا ہمارے دیس کی مہنگائی پر اک نظر ڈالیں گھی 600 روپے کلو کی بلند ترین شرح کو چھو رہا ہے، ٹماٹر کی قیمت اڑھائی سو روپے مقرر کر دی ، کابلی چنے 250 روپے کلوم ہوگئے اب اڑہر کی دال ایک کلو 400 روپے میں ملے گی۔ معاش دال ایک کلو کے لیے آپ کو 290 روپے دینا پڑیں گے۔ دودھ‘ دہی ‘ آٹا ‘ انڈے اور دیگر ضرورت زندگی کی قیمتیں روزانہ یا ہفتہ وار بڑھائی جارہی ہیں۔ ہے کوئی عوام کی حمایت میں بولنے والا ؟ ایک مزدور کام ڈھونڈ کر پورے دن کی اجرت ایک ہزار یا گیارہ سو وصول کرتا ہے، شام کو چند کلو سبزی ‘ گھی اور آٹا لے جانے کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ ایسے حالات میں بیماری اور مہمان داری کے لیے وہ کس در پر دستک دے ؟
مہنگائی ،بےروزگاری اور بیماری نے ہر شعبہ زندگی پر گہر ے اثرات مرتب کئے ہیں اب وہ اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے الزالے کے لیے کہاں جائے؟ اگر ہماری قومی سیاست اصولوں کے پردوں میں لپٹی ہوتی تو آج سیاست دان بڑھتی ہوئی مہنگائی پر مسلسل اجلاس کرتے جس کا معقول حل تلاش کرلیتے مگر ہمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور” دوسرے سیاسی کاموں“ سے فرصت نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ عوام دوستی اور انسان دوستی کی شمع کب فروزاں ہوگی؟

مزیدخبریں