خان صاحب نے ریاست مدینہ کا جو تصور حکومت میں پیش کیا پتہ نہیں عوام کس حد تک اس سے متفق ہیں لیکن ریاست مدینہ میں بہت وسعت ہے وہ ایک مکمل نظام ہے لگتا ہے اسے سیاسی طریقہ سے استعمال کرنے کی کو شش کی گئی۔ عمران حکومت میں بہت سے نقائص تھے اور کچھ اچھے پہلو بھی تھے لیکن اب اگر وہ اقتدار میں آئے تو شائد صحیح طریقہ سے ریاست مدینہ کے تصور کو سمجھ سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ کیوں نا بن سکا؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں قیام پاکستان کا قیام اور وجود ریاست مدینہ کے لئے ہے لیکن ہم نے ملک کو ریاست مدینہ نہ بنانے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کیں اور کر رہے ہیں اگر یہ ملک ریاست مدینہ پر چل پڑے تو اس کی معیشت مضبوط ہو جائے غربت ختم ہو جائے، معاشرہ درست سمت پر چل پڑے ،غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل ہو جائے، اسلامی ریاست میں اگر ایک کتا بھی بھوکا سو جائے تو اس کی ذمہ داری ریاست کے سربراہ پر آتی ہے اب آپ 1947 سے اب تک سیاست دانوں کی سیاست اور بہتر حکمرانی کے علاوہ ریاست مدینہ پر انھوں نے کیا کام کیا اور کیا کام کر رہے ہیں اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ حکومت کے سربراہ ( وزیر اعظم ) پر ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کو رات کو نیند نہ آئے اور وہ وزیر اعظم بننے سے گھبرائے ہم سب قصوار ہیں اس ملک کو ریاست مدینہ نہ بنانے میں اگر یہ ملک اسلامی بن جائے تو ہر مسلہ خود بخود حل ہوجائے سیاست دان اپنا کردار ادا کریں عدلیہ اپنا کردار ادا کرے اور باقی ریاستی ادارے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔
خلفائے راشدین ؓکا زمانہ ریاست مدنیہ کی بہترین مثال ہے عمران خان نے ریاست مدنیہ کی کوشش ضرور کی ہے لیکن وہ ناکام رہے ہیں اور ریاست مدنیہ کے نام پر چار سال گزار گئے ہیں اب توشہ خانہ سکینڈل اور الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ اور ان کے ملازمین کے اکاونٹ میں رقوم کی منتقلی یہ سب ایسے معاملات ہیں جو مستقبل میں ان کو تنگ کریں گےریاست مدنیہ کی اسلامی نقطہ نظر سے چند سطور میں اہمیت و افادیت سمجھانے کی معاشرہ کو ضرورت ہے اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ تخلیق کائنات کا مقصد اللہ کی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ اللہ نے کائنات کے وجود کے ذریعے نیک لوگوں کے لئے بے شمار نشانیاں ظاہر کی ہیں، ایک طرف نیکی اور دوسری طرف بدی ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ادارے فلاحی کاموں کے ذریعے اللہ کی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام ہمیں نیکی، بھلائی، غریب و مساکین اور حاجت مندوں کی بلا امتیازات مدد کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ زکوٰہ کا نظام بھی اسی لئے متعارف کرایا گیا ہے تاکہ دولت کی تقسیم مساویانہ ہو سکے اور معیشت پر اس کے اثرات نہ صرف مثثت پڑیں بلکہ ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوں اور ضرورت مند لوگوں کی حاجات پوری ہو سکیں۔ اسی وجہ سے اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
دین اسلام بھی ہمیں ہمدردی، خیر سگالی اور دوسروں کی تکالیف میں ان کی مدد کے لئے عملی اقدامات کا درس دیتا ہے۔ غریبوں، مسکینوں، بیماروں، ناداروں اور بے سہارا لوگوں کی تکالیف اور دکھ درد میں شریک ہونا ہمارا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اسلام بین الاقوامی مذہب ہے جو ہمیں مساوات، اخوت اور دکھ درد بانٹنے کا درس دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسانی خدمت اور بھلائی کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کائنات کی ابتدا ہی سے شروع ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام آئے۔ ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرے اور اس کو مشکل سے نکالنے کے لئے کوشش کرے۔ اسلام پسے ہوئے طبقے کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے اور اپنے رزق میں سے کچھ حصہ انسانی مشکلات میں دھنسے ہوئے انسانوں پر خرچ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا دائرہ کار محدود نہیں ہے بلکہ اس کے سنہرے اصول ہمیں غیر جانبداری اور بنی نوع انسانیت کی خدمت کرنے کا درس دیتے ہیں۔ اسلام میں صدقات کی بے شمار قسمیں ہیں جو غیر جانبداری کے تصور سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر ہم نے پاکستان کو درست سمت میں لے کر جانا ہے تو پھر ہمیں اپنی زندگیوں میں خود تبدیلیاں لانی ہیں
اسلامی مذہب کی بنیاد خدمتِ خلق پر رکھی گئی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو لوگوں کے دکھوں کا مداوہ کرنا اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا قرآن و حدیث میں واضح طور پر ہے۔ آیت نمبر 271 میں ہے کہ ”جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ ظاہر (راہِ خدا) میں خرچ کرتے ہیں ان کا صلہ پروردگار اعلیٰ کے پاس ہے اور ان کو قیامت کے دن نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ غم“ دوسری سورت کی آیت نمبر 267 میں ہے ”مومنو جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا) میں خرچ کرو اور بڑی اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا“۔ ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن بے شمار آسانیاں ہوں گی اور انہیں کوئی غم یا فکر نہ ہو گا۔
قرآن میں بھی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا بار بار ذکر آیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت کے لیے زیادہ سے زیادہ اپنا مال خرچ کیا جائے۔ اسلام میں زکوٰة کا نظام بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ کسی بھی معاشی نظام میں عدل مساوات کا تصور زکوٰہ سے ختم ہوتا ہے اور زکوٰہ سے غریب، مساکیین، بیوہ، خاندانوں کی مالی معاونت ہوتی ہے انسانیت کا مفہوم وسعت کی حدود و قیود سے بالکل باہر ہے۔ نبی کریم انسانیت کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپ کی مبارک زندگی کے بے شمار واقعات و حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی مبارک زندگی میں انسانیت کے تصور کو مقدم ر کھا اور اولیت دی۔ خلفائے راشدین نے اپنی زندگی اور ریاستی امور قرآن و سنت کی روشنی میںانجام دیئے اور ان امور میں انہوں نے جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ غلاموں کے حقوق اور ان کے انصاف کی فراہمی میں یقینی بنائی۔ اسلام کا حکمرانی کا نظام بھی ریاست میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی آزادانہ اور اپنے مذہب کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ اسلام کہیں بھی بنی نوع انسانیت کی خدمت کرنے کی قدغن نہیں لگاتا بلکہ اسلام انسانیت کاپرچار کرتا ہے اور فلاح و بہبود کے تصور کو اجاگر کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی بھی بھوکا سوئے تو اس کی ذمہ داری حکمران پر ہے۔