فالج کیلئے کسی عمر کی حد نہیں، بروقت علاج نہ ہو تو جسم زندگی بھر کیلئے مفلوج ہوسکتا ہے، شرح اموات کا بڑھنا خطرے کی گھنٹی ہے‘ڈاکٹر لال چند /ڈاکٹر عبدالحفیظ 


حیدر آباد/ لاڑکانہ/ سکھر ( بیورورپورٹ) پاکستان میں دس لاکھ سے زائد افراد فالج و دیگر امراض کی وجہ سے معذوری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور سالانہ چار لاکھ افراد فالج کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان خیالات کا اظہار عالمی یوم فالج کے موقع پر سکھر کے معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر لال چند نے الخدمت فاو¿نڈیشن پاکستان کے نائب صدر حارث مسعود اور جنرل سیکریٹری سکھر اسد اللہ تونیو کے ہمراہ سکھر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ فالج کا مرض لاحق ہونے کی کوئی عمر نہیں ہے ہر۔عمر کے افراد کو یہ مرض لگ سکتا ہے ہر چار میں سے ایک مرد اور ہر چار میں سے ایک عورت اس کا شکار ہوتی ہے پہلے یہ مرض لاعلاج تھا مگر شعبہ طب کی ترقی اور اس کی بڑھتی ہوئی تحقیق کے بعد اب یہ لاعلاج مرض نہیں رہا ہے مگر ہاکستان میں لوگ اب بھی اس کا موثر معیاری اور سستے علاج سے محروم ہیں فالج جسم کے کسی بھی حصے کو مفلوج بنا سکتا ہے اگر فالج کے مرض پر قابو پایا جائے تو ملک میں 7 سے 20۔فیصد تک ہونے والی اموات کو روکاجاسکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت اس کو اپناپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ حیدرآبادسے بیورو رپورٹ کے مطابق پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ،نیورو لوجی اوئرنس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن اور پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے زیر اہتمام حیدرآباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس سے لمس یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ نیورو لوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحفیظ بگھیو، ڈاکٹر مسلم علی لاکھیر، ڈاکٹر عزیز الرحمن اور الخدمت فا¶نڈیشن حیدرآباد کے صدر صدر سیف الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فالج عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فالج کی وجہ سے شرح اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے عوام کی بڑی تعداد فالج کے بروقت موثر، معیاری اور سستے علاج سے محروم ہے جس کے سبب پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ چار لاکھ سے زائد افراد انتقال کر جاتے ہیں اور لاکھوں افراد مستقل معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین نے فالج کی علامات بتاتے ہوئے کہا کہ جسم کے کسی ایک حصے کا سن ہو جانا، قوت گویائی سے محرومی یا باتوں کو سمجھ نہ پانا، کھانے پینے میں دشواری، چلنے پھرنے سے معذوری، نظر کا دھندلا ہوجاناوغیرہ شامل ہیں ۔ ماہرین نے کہا کہ فالج سے بچا¶ کے لیے ضروری ہے کہ بلڈ پریشر ،شوگر اور کولیسٹرول پر قابو رکھا جائے اور مرغن غذا¶ں کے زیادہ استعمال سمیت الکوحل سے پرہیز کیا جائے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی نہ صرف فالج سے ہونے والی سالانہ لاکھوں اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔بعدازاں پریس کلب کے باہر آگاہی ریلی بھی نکالی گئی۔ لاڑکانہ سے بیورورپورٹ کے مطابق لاڑکانہ میں فالج سے بچاو¿ کے عالمی دن کے موقع پر نیورولوجی اسپیشلسٹ ڈاکٹر مختار لاکو، ڈاکٹر شعیب مگسی، ڈاکٹر ماجد علی کھنڈ نے الخدمت فاو¿نڈیشن سندھ کے رہنماو¿ں قاری ابو زبیر جاکرو اور دیگر کے ہمراہ لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فالج کی علامات میں چکر آنا اور بولنے میں دشواری، چہرے کا اکڑنا اور بازوو¿ں میں کمزوری شامل ہیں جس میں جسم کا ایک حصہ کمزور ہو جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ فالج کا مرض تمباکو نوشی، ہائی بلڈ پریشر، فاسٹ فوڈ کھانے، ذہنی تناو¿ اور بے چینی سے ہوتا ہے، اس لیے ایسے مریض کا 3 گھنٹے تک نیورولاجسٹ سے معائنہ کرایا جائے اور مسلسل علاج کیا جائے کیونکہ یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور اس کا مکمل علاج اس سے ممکن ہے جس کا خرچہ 8 سے 10 لاکھ روپے ہے۔ پاکستانی خواتین میں چھاتی کے سرکان کا مرض سب سے زیادہ سامنے آ رہا ہے، اور نوجوان لڑکیاں بھی اس میں مبتلا ہیں، جو آگاہی نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر تک پہنچنے سے قبل ہی تیسرے اور چوتھے درجے کے کینسر میں مبتلا ہوچکی ہوتی ہیں، تفصیلات کے مطابق ایٹامک انرجی کمیشن پاکستان کے زیر انتظام لینار کینسر اسپتال لاڑکانہ میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی تقریب اور واک کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاریکٹر لینار ڈاکٹر عبدالصمد شیخ، ہیڈ آنکولاجی ڈیپارٹمنٹ معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر ارم ناز، لینار کے فیکلٹی میمبرز، عملے نے شرکت کی جبکہ پروگرام میں پروفیسر رفیعہ بلوچ اور ڈاکٹر سکینہ گاد نے خصوصی شرکت کی اس موقع پر ڈاریکٹر لینار ڈاکٹر عبدالصمد شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستانی خواتین میں بریسٹ کینسر کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے اور نوجوان لڑکیاں بھی اسکا شکار ہیں عمومی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں 50 سال سے زائد عمر کی خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ پاکستان میں 20 سے 40 کی عمر کی خواتین بھی اسکا شکار ہیں جو کہ جبکہ لینار کینسر اسپتال لاڑکانہ میں بھی سب سے زیادہ خواتین مریض چھاتی کے سرطان کے مرض کا شکار ہیں، اس موقع پر ہیڈ آنکوجی ڈیپارٹمنٹ لینار ڈاکٹر ارم ناز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین شرم کے باعث چھاتی کے سرطان کے متعلق بات نہیں کرتیں، اور گٹھلی کی شکایت ہو بھی تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تاہم خواتین کو یہ آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ چھاتی میں گٹھلی یا خون آنا سمیت دیگر سرطان کی علامات ہیں اور فوری ڈاکٹر سے مشاورت کے بعد تشخیص ضروری ہے، انکا مزید کہنا تھا کہ خواتین ابتدائی علامات کو نظر انداز کرتی ہیں اور مرض کے اسٹیج تھری یا فور پر پہنچ جانے کے بعد اسپتال کا رخ کرتی ہیں اور تب تک بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے ڈاکٹر ارم ناز کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان لڑکیوں کا اس مرض میں مبتلا ہونا غیر معمولی ہے اور اس بیماری سے بچاﺅ کے لیے آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔
چھاتی سرطان/فالج حملے 

ای پیپر دی نیشن