59سالہ قیدی مارائس ہیسٹنگ کو 1983 میں قتل کے ایک اور اقدام قتل کے دو الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی
امریکہ میں 38 برس بعد ڈی این اے شواہد آنے کے بعد قتل اور اقدام قتل کے الزامات میں سزا پانے والے ایک قیدی کو رہا کر دیا گیا ہے۔امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے ایک کاونٹی ضلعی اٹارنی نے بتایا کہ 59 سالہ قیدی مارائس ہیسٹنگ کو 1983 میں قتل کے ایک اور اقدام قتل کے دو الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی، تاہم اس مقدمے میں ڈی ای اے ٹیسٹ نہیں ہوئے تھے۔ڈی این اے کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ یہ جرائم اصل میں ایک اور شخص نے کیے جو دیگر الزامات کے تحت قید تھا اور دو برس قبل فوت ہو چکا ہے۔ اس قیدی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔پراسیکیوٹرز کی جانب سے عدالت سے مارائس ہیسٹنگ کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس بابت کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، لاس اینجلس کے پروجیکٹ 'معصوم سے جڑے وکلا بھی پیش پیش تھے۔ رہائی کے بعد ہیسٹنگ نے پریس کانفرنس میں کہا، ''میں برسوں اس دن کے لیے دعا کرتا رہا ہوں۔ مجھے کسی پر الزام نہیں لگانا اور نہ میں کوئی کڑوی بات کرنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے جو زندگی ملی ہے میں اسے جینا چاہتا ہوں۔ڈسٹرکٹ اٹارنی جورج گیسکن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیسٹنگ کے ساتھ شدید نوعیت کی ناانصافی ہوئی ہے۔ ''نظام انصاف کامل نہیں ہے اور جہاں ہم نئے شواہد کی بنیاد پر کچھ نیا سیکھتے ہیں، جس سے کسی کے جرم کی صحت سے متعلق سوال پیدا ہو رہے ہیں، تو ہم پر لازم ہے کہ ہم فوری طور پر آگے بڑھیں۔ہیسٹنگ کو روبیرٹا ویڈرمیئر پر جنسی حملے اور سر پر گولی مار کر قتل کرنے کا الزام تھا۔ مقتولہ کی لاش لاس اینجلس کے نواح میں کھڑی گاڑی کے ٹرنک سے ملی تھی۔ ہیسٹنگ کو 'خصوصی حالات میں قتل کرنے کے الزام کا سامنا تھا اور اس کے لیے اٹارنی کی جانب سے موت کی سزا کی استدعا کی گئی تھی، تاہم اس بابت جیوری اختلاف کا شکار رہی۔سن 1988 میں اس مقدمے کی دوسری جیوری نے ہیسٹنگ کو مجرم قرار دیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اس میں پیرول پر رہائی کا کوئی امکان نہ رکھا گیا۔ہیسٹنگ اپنی گرفتاری سے لے کر قید تک مسلسل اصرار کرتے رہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ مقتولہ کی آٹوپسی کے ذریعے پتا چلا تھا کہ اسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ہیسٹنگ نے سن دو ہزار میں اس بابت ڈسٹرکٹ اٹارنی دفتر سے ڈی این اے ٹیسٹنگ کی استدعا کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا۔گزشتہ برس ہیسٹنگ نے ایک مرتبہ پھر اپنے بے قصور ہونے کا دعوی دائر کیا اور گزشہ برس جون میں ڈی این اے ٹیسٹنگ سے ثابت ہوا کہ مقتولہ کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے کے نمونے ہیسٹنگ کے نہیں بلکہ ایک اور مقدمے میں قید رہنے اور پھر فوت ہونے جانے والے ایک اور مجرم کے ہیں۔