میاں نوازشریف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج تو نہیں ھے ، ان کے خاندان کی کاروباری اور سیاسی فتوحات پاکستان کی تعمیر و ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ھیں۔ ان کی فیملی اور ذات کے دو پہلو ایسے ھیں جو پوری پاکستانی قوم کے لیے مشعل راہ ھیں۔ خاندانی پہلو آپس کا اتفاق اور ذاتی پہلو اللہ کی ذات پر کامل یقین ھے۔
میاں نواز شریف نے ایک سرمایہ دار گھرانے میں آنکھ کھولی اور گھر میں تائے ، چاچوں میں بے تحاشا اتفاق دیکھا ، تو خاندانی کاروبار کو اتفاق گروپ کے نام سے ہی آ گے بڑھایا۔ ایک بڑا سرمایہ دار ھونے کے بعد سیاست شروع کی اور دیکھتے ھی دیکھتے ایک بڑا سیاسی لیڈر بن کر ملک کے اہم عہدوں پر فائض ھو گئے۔ وہ 1981ءمیں پنجاب کے فنانس منسٹر 1985ءمیں چیف منسٹر اور 1990 میں پاکستان کے پرائم منسٹر بن گئے۔ میاں نوازشریف اپنی وزارت عظمیٰ کے تینوں ادوار کے دوران مجموعی طور پر دس سال کے قریب پاکستان کے وزیراعظم رھے ھیں۔ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پندرہ سال تک یہ ساری فیملی زیر عتاب رھی۔ اس دوران یہ جلاوطنی ، مقدمات اور دل شکن سنگین سزاوں کا سامنا کرتے رھے۔
میاں نواز شریف اپنی ذاتی زندگی میں ایک متقی ، پرہیز گار مسلمان ھیں ، انہوں نے اپنی زندگی میں ھمیشہ ہر نماز با جماعت ادا کی ھے۔ گھر میں بھی نماز کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ اذان اور جماعت کا اہتمام کیا جاتا ھے۔ دونوں بیٹے بھی پابندی نماز کے عادی ھیں ، لندن میں بھی انہوں نے اپنے گھر کا ایک کمرہ نماز کے لیے مختص کر رکھا ھے جہاں مولوی شکور باقاعدگی سے اذان دیتے اور جماعت کراتے ھیں۔ میاں نواز شریف ، نعت سے عشق کی حد تک لگاو¿ رکھتے ھیں اکثر پاکستانی نعت خوانوں سے گفتگو بھی کرتے رھتے ھیں اور جب بھی موقع ملے انہیں بلا کر دیر تک نعتیں سننا ان کا پسندیدہ عمل ھے۔ جتنی بھی اھم میٹنگز ھوں یہ نماز کبھی نہیں چھوڑتے اور جتنے بھی فیشن ایبل ھو جائیں ان کی فیملی کے تمام افراد ھر وقت با وضو بھی رھنے کی کوشش کرتے ھیں۔ یہ فیملی دنیاوی یا مذہبی دکھلاوے کو بھی پسند نہیں کرتی ، جب تک میاں شریف زندہ رھے میاں نواز شریف جمعہ کا دن ان کے ساتھ گزارتے تھے اور اکٹھے جمعہ کی ادائیگی کرتے۔ اب بھی ہر جمعے ان کا وسیع دستر خوان ھوتا ھے ، ہر نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سو پچاس لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا ان کا معمول ھے۔
میاں نواز شریف اپنی شریک حیات کو بھی بہت یاد کرتے ھیں اور اکثر دوران گفتگو بھی ان کا ذکر کرتے رھتے ھیں۔ ان کے دونوں بیٹے غیر سیاسی ضرور ھیں لیکن ہر کاروباری مشورہ اپنے والد سے لیتے ہیں اور فیملی میں بیٹے کوئی اچھی سیاسی بات کریں تو میاں نواز شریف فوری ان کی تعریف بھی کرتے ھیں۔ بڑے بیٹے حسین نواز نے بظاہر تو والد کی طرح قانون کی ڈگری بھی پاس کر رکھی ھے لیکن وہ سعودیہ میں سٹیل کا اپنا آبائی کاروبار کر رھے ھیں ، چھوٹے بیٹے حسن نواز نے بھی والد ھی کی طرح کاروباری تعلیمی ڈگری بھی لے رکھی ھے اور لندن میں پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ھیں۔ والدہ کی وفات کے بعد چار سال سے ان کے بیٹوں نے میاں نواز شریف کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا ھمیشہ ڈیوٹی سمجھ کر شانہ بشانہ ان کے ساتھ رھے ھیں۔
میاں نواز شریف کو سمندری سیاحت کی بجائے پہاڑی سیاحت کا بہت شوق ھے ، بلند و بالا پہاڑوں سے انہیں پیار ھے ، انہوں نے مری اور چھانگلہ گلی میں گھر بھی بنائے ھوئے ھیں۔ سیاحت کے لیے مری اور گلیات کی ترقی میں ان کا اھم کردار ھے ، ہر کسی کو ان سیاحتی مقامات تک آسان رسائی کے لیے وہاں کی ڈبل سڑکیں انہی کا کارنامہ ھے ، ورنہ کسی دور میں وہاں کی چھوٹی سڑکوں پر ایک گاڑی کو راستہ دینے کے لیے دوسری گاڑی کو رکنا پڑتا تھا۔
میاں نواز شریف اپنے ساتھ ھونے والی تمام زیادتیوں کے با وجود لندن قیام کے دوران ، پاکستانی اکانومی کی دن بدن گرتی صورتحال پر پریشان رھتے کہ ملک کدھر جا رھا ھے ، اور عام آدمی کی مشکلات کس درجہ بڑھ چکی ھیں۔ اپنے ساتھ ھوئی نا انصافیوں پر وہ ھمیشہ کہتے کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ کی ذات کے سپرد کر دیا ھوا ھے ، میاں نواز شریف کو خدا کی ذات پر کامل یقین تھا کہ وہ ذات باری تعالی ضرور ان کی بے گناھی ثابت کر کے انہیں سرخرو کرے گی۔ ان کے خدا کی ذات پر اس قدر اعتقاد ھی کا یہ معجزہ ھے کہ ، جب مخالفین سمجھتے ھیں کہ ان کی سیاست اب ختم ھو گئی ھے تو وہ دوبارہ وہاں سے واپس آتے ھیں جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ شریف فیملی کا اتفاق ماضی میں بھی مثالی تھا اور آج بھی مثالی ھے۔ میاں نواز شریف اپنی اولاد اور پوتے پوتیوں سے بہت پیار کرتے ھیں میاں شہباز شریف سے بھی ان کا رشتہ بھائی سے بڑھ کر باپ بیٹے کا ھے۔
میاں نواز شریف پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کرتا ھوا دیکھنا چاہتے ھیں ، وہ سمجھتے ھیں کہ پاکستان کے پاس بے تحاشا ملکی اور قدرتی وسائل ھیں جنہیں بہتر استعمال میں لا کر آ گے بڑھا جا سکتا ھے ، وہ ملک کو ترقی کے بڑے بڑے تحفے دینا چاھتے ھیں۔ ملک سے بیروزگاری کو ختم کرنا اور معشت کو بہتر سے بہتر کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ھے۔ ماضی میں بھی وہ بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے ییلو کیب سکیمیں ، نوجوانوں اور عورتوں کے لیے بلا سود قرضے فراھم کرتے رھے ھیں۔ موٹرویز ، غازی بروتھا پراجیکٹ ، گوادر بندرگاہ اور سندھ کے بے زمین ہاریوں میں زمین کی تقسیم انہی کے کارنامے ھیں۔ انہوں نے ھمیشہ وسطی ایشیائی مسلم ملکوں سے باہمی تعلقات مضبوط کئے ان کی ایک اھم کامیابی سابقہ دور میں امریکی پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر پابندیوں کے باوجود پاکستان کی معاشی ترقی کا حصول تھی۔
٭....٭....٭