زکی کیفی، پیکر اخلاص و وفا

زکی صاحب نے دیو بند کے ایک علمی خانوادے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولانا مفتی محمد شفیع ؒ اور دادا مولانا محمد یٰسینؒ کا شمار اپنے دور کے ان بلند پایہ علماءمیں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں قرآن و حدیث کی تدریس میں بسر کر دیں۔ زکی صاحب کو دیو بند میں اپنے والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب کی وجہ سے اس دور کے علماءاور اولیاءکے چشمہ¿ فیض سے سیراب ہونے کا موقع ملا۔ انہوں نے ان بزرگوں سے اکتساب فیض کیا اور دوسرے لوگ جو چیزیں کتابوں سے حاصل کرتے ہیں ، زکی کیفی نے وہ خود برگزیدہ علمائ، صوفیاءاور شیوخ سے حاصل کیں۔ انہوں نے معاش کے لئے دینی کتابوں کو ذریعہ ¿ بنایا۔ جو حصول رزق کا ذریعہ ہی نہیں، رشد و ہدایت کی روشنی پھیلانے کا نہایت مو¿ثر وسیلہ بھی ہے۔ گویا ان کا ذریعہ معیشت بھی عبادت سے کسی طرح کم نہ تھا۔ انہوں نے تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کی مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کی عام زندگی کی تابانی بھی قائم رہی اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کی پیروی بھی جاری رہی۔ وہ تلاوت قرآن مجید کے بڑے شیدائی تھے۔ باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے۔ گھر پر ہی نہیں دکان پر بھی جب وہ فارغ ہوتے ان کا معمول یہی تھا کہ قرآن کریم کی تلاوت سے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشتے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد بے شمار لوگوں نے اس بات کی شہادت دی کہ وہ جب کبھی انارکلی میں ان کی دکان کے سامنے سے گزرے انہوں نے زکی صاحب کو تلاوت قرآن حکیم میں مصروف پایا۔ علماءکے لئے وہ اپنے دل میں خاص قدرو منزلت رکھتے تھے۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ اورکسی بھی مسلک سے ہو۔ علماءکی صفوں میں اتحاد کی ضرورت نہ صرف محسوس کرتے تھے بلکہ اس کے لئے کوشاں بھی رہتے تھے۔ 
والدین سے محبت اور ان کی خدمت یوں تو ہر مسلمان کے عقیدہ و ایمان کاجزو ہے لیکن اس معاملے میں بھی زکی صاحب کو قدرت نے بڑے اوصاف سے نوازا تھا۔ حضرت مفتی صاحب اور والدہ محترمہ کی طبیعت کی خرابی کی خبر پر بہت مضطرب اور بے چین ہو جاتے۔ والدین چونکہ کراچی میں تھے اور زکی صاحب کا مسکن لاہور میں۔ اس لئے شدید علالت کی اطلاع پر طبیعت بے سکون ہو جاتی۔ فون پر رابطہ رکھتے۔ پل پل کی خبر حاصل کرتے اور ضرورت پڑنے پر کراچی کا رخت سفر باندھتے۔ جب کبھی مفتی صاحب ہسپتال میں داخل ہوتے زکی صاحب شب و روز ان کے سرہانے رہتے اور خدمت میں سب سے زیادہ پیش پیش رہتے۔دوست داری کے معاملے میں زکی صاحب کا شیوہ بے مثل اور بے نظیر ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ دوستوں کے مسائل میں اسی طرح دلچسپی لیتے تھے جس طرح کوئی باپ اپنی اولاد کے معاملات سے دلچسپی رکھتا ہے تو کسی طرح غلط نہ ہوگا ۔ وہ دوستوں کے ناز اٹھاتے، انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے اورخود ان کی مشکلات و مسائل میں حصہ دار بنتے۔
زکی صاحب کا دستر خوان بہت وسیع تھا اور ہمارے ایک بزرگ حاجی محمد صدیق سرہندی کے بقول دسترخوان کسی شخص کے قلب کا عکس اورآئینہ ہوتا ہے اور جس کے ہاں دستر خوان کی وسعت ہو وہاں اللہ کی رحمت کی بارش ہوتی ہے۔ زکی صاحب کے ہاں آئے دن دوستوں کی خاطر مدارات کی جاتی۔ انہیں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا جاتا انہیں بعض دوستوں اور بزرگوں کی مستقل میزبانی کا شرف بھی حاصل تھا۔ جن میں مولانا ظفر احمد انصاری اور جناب ماہر القادری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زکی صاحب کے سعادت مند بیٹے ان کی اس روایت کو ان کے انتقال کے بعد بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ زکی صاحب نے ایک بار دوستوں کو مدعو کیا تو مجھے بھی حاضر ہونے کی سعادت بخشی۔ اس کے بعد پھر کسی موقع پر انہوں نے دعوت دی تومصطفی صادق صاحب نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ مگرمیں نے اس بنا پر معذرت چاہی کہ انہوں نے دعوت آپ کو دی ہے، مجھے دعوت نہیں دی اس لئے دعوت کے بغیر میرا جانا مناسب نہیں۔ مصطفی صادق صاحب کاشانہ¿ زکی پہنچے تو زکی صاحب نے سب سے پہلا سوال یہی کیا۔ ”بھائی جمیل کہاں ہیں؟“ مصطفی صادق صاحب نے بلا تکلف میری معذرت کا ذکر کر دیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ مجھے الگ پیغام ضرور دیتے تھے۔ افسوس کہ فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کے بعد اور اپنی رحلت سے چند روز قبل انہوں نے فون پر کھانے کی دعوت دی مگر میں بدقسمتی سے اس میں شریک نہ ہوسکا اور نہ ہی اس کے بعد ان سے ملاقات ہوسکی کہ اپنی اس کوتاہی پر معذرت کرتا اورانہوں نے دوبارہ حج کی سعادت نصیب ہونے پر دوستوں کو اپنی خوشی میں شریک کرنے کا جو اہتمام کیا تھا۔ اس میں عدم شمولیت پر اپنے دلی افسوس کا اظہار کرتا۔
ذکر ہو رہا تھا زکی صاحب کی دوست داری کا، وہ معمولی اور غیر معمولی ہر بات میں دوستوں کے حقوق کو ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک بار میری اہلیہ کو شدید درد ِ گردہ کا دورہ پڑا اور آناً فاناً ان کی حالت بہت غیر ہوگئی۔ یہ سردی کا موسم تھا اور کافی رات بیت چکی تھی۔ ہسپتال پہنچانے کے لئے گاڑی کی ضرورت تھی جو اس وقت میسر نہ آسکی تھی۔ مصطفی صادق صاحب نے زکی صاحب کو فون کیا کہ اگر ممکن ہو تو حافظ شفقت علی صاحب (زکی صاحب کے بہنوئی) اور حاجی شوکت علی صاحب کے ہاں سے گاڑی بھجوا دیں۔ چند منٹوں بعد گاڑی ہمارے ہاں پہنچ چکی تھی۔ آدھ گھنٹے بعد زکی صاحب کا فون آیا۔ ”اہلیہ کی طبیعت اب کیسی ہے؟“ ”الحمد للہ! اب وہ بہتر ہیں، ہسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں رہی۔“ میں نے جواب دیا۔ ”بھائی! اسی وقت سے دعائیں کررہا ہوں۔“ زکی صاحب کی زبان سے یہ جملہ سنا تو ان کی دعاﺅں کی تاثیر کے لئے کسی تصدیق کی ضرورت نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب بندے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اور لگاﺅ ایسا تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے لئے بارگاہ الٰہی سے جو کچھ مانگتے تھے وہ انہیں مل جاتا تھا۔ یہ مقام بلند شوق و جذب کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اورخدا تعالیٰ نے انہیں اس نعمت سے خوب خوب سرفراز کیا تھا۔
 زکی صاحب اپنے دوستوں کو اپنے قریب آباد کرنے کا بھی بہت شوق رکھتے تھے۔ مصطفی صادق صاحب نے جب مکان خریدنے کا ارادہ کیا تو مکان کی تلاش کی مہم کا بیڑا زکی صاحب نے اٹھایا۔ ان کی خواہش تھی کہ مکان سمن آباد، ملتان روڈ اور رستم پارک کے علاقے میں ہو۔ مصطفی صادق صاحب کیلئے مکان تلاش کرتے کرتے وہ کسی چھوٹے مکان کی نشان دہی بھی کر دیتے تھے کہ بھائی! یہ بھائی جمیل کے لئے موزوں رہے گا۔“ رستم پارک کے جس مکان میں اس وقت ہمارے مربی و محسن جناب کلیم عثمانی رہائش پذیر ہیں یہ بھی ایسے مکانات میں سے ایک تھا۔ بعد میں انہوں نے مصطفی صادق صاحب کے لئے جو مکان تلاش کیا اس کے سلسلے میں بھی ایک واقعہ سن لیجئے کہ ایک پراپرٹی ڈیلر نے انہیں سمن آباد میں ایک مکان کا نمبر دیا کہ یہ مکان برائے فروخت ہے۔ زکی کیفی صاحب مصطفی صادق صاحب کو یہ مکان دکھانے کےلئے لے گئے تو انہوں نے اسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی ایک مکان (جو خاصے فاصلہ پر تھا) کی طرف اشارہ کیا اور کہا ”بھائی! وہ رہا آپ کا مکان۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی مکان تھا جس کی پراپرٹی ڈیلر نے نشان دہی کی تھی اور وہی مکان اب مصطفی صادق صاحب کی رہائش گاہ رہا۔ کلیم عثمانی صاحب سے ان کی دوستی بھی قابل رشک تھی۔ زکی اور کلیم بچپن کے دوست تھے لیکن کیا مجال کہ وقت گزرنے کے ساتھ محبت میں کوئی کمی آئی ہو۔ دونوں عمر بھر ایک دوسرے پر جان چھڑکتے رہے۔ اس دور میں ایسی مثالیں کہاں ملتی ہیں۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن