سفاک اسرائیل کی زمینی اور فضائی بمباری سے انسانی خون کی ندیاں بہاتی‘ ادھڑی‘ کھنڈر بنی غزہ کی سرزمین آج شرف انسانیت کی بے توقیری پر دہائی دے رہی ہے اور انسانی حقوق کے چیمپئن ممالک اور اداروں سمیت دنیا کے کسی کونے میں ایسا تحرک پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا جو اسرائیلی صیہونیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے برتری کے خناس پر انہیں مسکت جواب دے سکے اور فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے اٹھنے والے اسکے قدم اور ہاتھ روک سکے۔ روئے زمین پر اپنے وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنیوالے انسانوں کے لمحہ لمحہ‘ پل پل قتل عام کے روح فرسا مناظر دیکھ کر یقیناً آسمانوں پر بھی آہ و کرب کا ماحول طاری ہوگا مگر زمین پر اشرف المخلوقات کی اس انداز کی بے توقیری اور انسانی خون کی ارزانی پر کہیں کوئی خوف تریڑی نظر آتی ہے اور نہ ہی ذاتِ باری تعالیٰ کے مردود ٹھہرائے صیہونیوں کو معصوم بچوں اور خواتین سمیت انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑانے کے ننگ انسانیت جرائم پر انہیں قرار واقعی سزا دینے کیلئے کوئی مسلمان میدانِ عمل میں اترتا نظر آرہا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی بے بسی اور لاچاری کا تماشا دیکھنے والی مسلم دنیا کا طرزعمل تو اور بھی اذیت ناک ہے جس کی اکثر قیادتیں بدستور مصلحتوں کے لبادے اوڑھے بیٹھی ہیں اور بیت المقدس پر الحادی قوتوں کی یلغار کو دیکھ کر بھی ان میں جوشِ ایمانی اور غیرتِ ملی کی کوئی رمق پیدا ہوتی نظر نہیں آرہی۔
غاصب اسرائیل اب اپنے مظالم کی اس انتہاءکو جا پہنچا ہے کہ اس نے گزشتہ روز غزہ پر بیک وقت زمینی اور فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر شہادتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور تین ہفتے کے دوران اسرائیلی وحشت و بربریت کے جاری سلسلے میں فلسطینی باشندوں کی مجموعی شہادتوں کی تعداد سات ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن کے شہر‘ دیہات‘ کاروباری مراکز‘ تعلیمی ادارے اور مساجد سمیت کوئی بھی پبلک مقام اور نجی عمارتیں اسرائیلی فوج کے حملوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یارومددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ انہوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں‘ رشتہ داروں‘ پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہوگا۔ مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا۔ نام نہاد نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ‘ اسکی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی جزیات تک کی خبر ہے مگر ظالم و غاصب کے ہاتھ روکنے کے معاملے میں انکی بے بسی و بے حسی انتہاءکو جا پہنچی ہے۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کیلئے روس کی پیش کردہ قرارداد امریکہ نے ویٹو کردی اور گزشتہ روز جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کیلئے قرارداد منظور ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آپائی کیونکہ ساری الحادی قوتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں، فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے انکی حوصلہ افزائی کررہی ہیں اور انہیں جنگی سازوسامان سے بھی لیس کررہی ہیں۔
اقوام متحدہ کو اس حقیقت کا تو احساس ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ میں اسی طرح ناکہ بندی جاری رکھی گئی اور انہیں ادویات اور کھانے پینے تک کی اشیاءسے مسلسل محروم کیا جاتا رہا تو وہ بہت جلد بھوک سے مرنے لگیں گے مگر زخموں سے چ±ور اور کرب و بلا میں ڈوبے ان انسانوں کو بچانے کیلئے کسی ملک‘ کسی ادارے اور کسی تنظیم کو کوئی عملی اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہورہی۔ الٹا حماس کو دہشت گرد ٹھہرا کر اس کا ناطقہ مزید تنگ کرنے کی تدبیریں سوچی جارہی ہیں۔ گزشتہ روز غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی جانب سے کی گئی وحشیانہ بمباری کے باعث غزہ کا مواصلاتی نظام بھی تباہ ہو گیا‘ نتیجتاً فلسطینیوں کا دنیا سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا اور وہ خود پر جاری اسرائیلی مظالم سے کسی کو آگاہ کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں رہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے ایک 100 طیاروں نے گزشتہ روز غزہ پر بیک وقت حملہ کیا جس سے ہونیوالی تباہی کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسکے باوجود فلسطینیوں میں آزادی کی تڑپ ختم نہیں ہو سکی اور فلسطینی وزیراعظم نے باور کرایا کہ اسرائیل اگر سمجھتا ہے کہ وہ اپنی وحشت و بربریت سے حماس کو ختم کر دیگا تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ حماس نے اپنی قید میں موجود اسرائیلی باشندوں کی رہائی غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کر دی ہے۔ حماس کے ترجمان ابوحامد نے گزشتہ روز روسی میڈیا کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پچاس اسرائیلی قیدی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ یقیناً حماس تو حق و باطل کے اس معرکے میں کشتیاں جلا کر اسرائیل کیخلاف ”تنگ آمد بجنگ آمد“ پر اتری ہے۔ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنی سرزمینِ فلسطین کو غاصب اسرائیل کے قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد کرے گی اور اگر اس معرکہ حق و باطل میں حماس کو مسلم دنیا کے صرف ایک دو ممالک کی جانب سے بھی کمک مل جائے تو ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا کہیں نام و نشان نظر نہ آئے مگر مسلم قیادتوں کو محض اپنے مفادات ہی عزیز نظر آتے ہیں۔ اگر انہوں نے اسی طرح اپنی مصلحتوں کے لبادے اوڑھے رکھے تو انکی کمزوریوں کو بھانپ کر الحادی قوتیں ہر مسلم ریاست کو ایک ایک کرکے اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھاتی جائیں گی اور ہمارے لئے کشمیر کی آزادی کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔ اگر آج بھی مسلم دنیا میں غیرت ایمانی کی کوئی رمق موجود ہے تو اسکی قیادتوں کو اپنی اغراض و مفادات سے باہر نکل کر اپنے مظلوم فلسطینی اور کشمیری بھائیوں کا عملی ساتھ دینا چاہیے ورنہ اقبال کا یہ کہا ہی نوشتہ دیوار ہے کہ:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں