سوشل میڈیا: اظہار رائے یا اشتعال انگیزی؟

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com

عصر حاضر میں، سوشل میڈیا نے رائے کے اظہار اور عوامی مکالمے کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان میں ایک دو دھاری تلوار کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر جہاں ہر طبقے کے افراد سیاسی، سماجی، اور مذہبی معاملات پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہیں، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا بسا اوقات اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز مواد پھیلانے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ اس دوہرے کردار نے ایک بہت ہی اہم سوال کھڑا کیا ہے کہ آیا سوشل میڈیا حقیقی اظہارِ رائے کا ذریعہ ہے یا اشتعال انگیزی کا آلہ؟
پاکستان میں جہاں مختلف ثقافتی، مذہبی، اور سیاسی خیالات موجود ہیں، سوشل میڈیا عوامی مکالمے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ ہر طبقے کے افراد کو اب سیاست سے لے کر سماجی ناانصافیوں تک کے معاملات پر اپنی آرائ کا اظہار کرنے کی آزادی حاصل ہوئی ہے۔ پہلے جو مکالمے مخصوص حلقوں تک محدود تھے، وہ اب سامعین کی ایک وسیع تعداد تک پہنچ سکتے ہیں۔ خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظات، اور ماحولیاتی مسائل جیسے اہم موضوعات کو سوشل میڈیا پر کووریج ملتی ہے اور عوامی شمولیت بڑھتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مشاورت اور اجماع کے اصول اہم ہیں، جن کے تحت معاشرتی مسائل پر آزادانہ اور تعمیری مکالمہ معاشرے کو مضبوط بناتا ہے۔
تاہم، ان مثبت پہلوو¿ں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی جانب سے فراہم کردہ گمنامی اور فاصلے اکثر افراد کو ایسے خیالات کے اظہار کی جرات دیتے ہیں جو نفرت یا تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔ نفرت انگیز تقریر، فرقہ وارانہ گفتگو، اور مذہبی شخصیات یا کمیونٹیوں کے خلاف توہین آمیز بیانات کی مثالیں بڑھتی جا رہی ہیں، جو ایسے اشتعال انگیز مواد کے ممکنہ نتائج کے بارے میں تشویش بڑھا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اسلامی تعلیمات کے اس اصول کے خلاف ہے جو اخلاق اور احترام پر زور دیتا ہے۔ اسلام میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ بات چیت میں احترام اور مہربانی کو فروغ دیا جائے تاکہ معاشرتی امن قائم رہے۔
اسلام میں فتنہ کا تصور بھی اس تناظر میں بہت اہم ہے، جو کسی بھی ایسی بات یا عمل کی مذمت کرتا ہے جو معاشرتی بے چینی اور فساد پیدا کرنے کا سبب بنے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذہبی اور نسلی گروپوں کے درمیان تاریخی تناو¿ موجود ہے، سوشل میڈیا کے اشتعال انگیزی کا مرکز بننے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اس اشتعال انگیزی سے معاشرتی اور قومی ہم آہنگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے الفاظ کی طاقت کو سمجھیں اور بات چیت کو مثبت رخ دیں تا کہ عوامی جذبات مجروح نہ ہوں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور رہنما بھی سوشل میڈیا کو اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم براہ راست عوام سے رابطے کی سہولت فراہم کرتے ہیں جس سے شفافیت اور جوابدہی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سنسنی خیزی کی ایک نئی ثقافت بھی پروان چڑھتی ہے، جہاں جعلی خبریں، غلط معلومات اور پروپیگنڈا عام ہو جاتا ہے۔ اسلام سچائی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور جھوٹی باتیں پھیلانے کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ لہذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے، یہ ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کریں، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں ایک ٹوئٹ پورے ملک میں بے چینی پیدا کر سکتی ہے اور ایک غلط خبر قومی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے قانونی فریم ورک بھی موجود ہیں، جیسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016، جس کا مقصد آن لائن مواد کو کنٹرول کرنا، اسے منظم کرنا اور سائبر جرائم کا سدباب کرنا ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے تاکہ اختلاف رائے کو دبایا جا سکے اور مخالفت کو خاموش کر دیا جائے۔ آزادی اظہار اور اشتعال انگیزی کو روکنے کی کوششوں میں توازن قائم کرنا ایک پیچیدہ چیلنج ہے، جس کے لیے نرم پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، مصلحت یعنی عوامی مفاد کا تصور اس تناظر میں اہم ہے جس کی روشنی میں سوشل میڈیا کو منظم کرنے والی پالیسیوں کا مقصد معاشرتی بہبود اور عوامی مفاد کا تحفظ ہونا چاہیے تاکہ تعمیری مکالمہ فروغ پائے اور نقصان دہ مواد کی حوصلہ شکنی ہو۔
سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے لیے آگاہی مہمات اور ڈیجیٹل لٹریسی کا انعقاد ضروری ہے جو صارفین کو اس قابل بنا سکتی ہیں کہ وہ دیکھی جانے والی اور شیئر کی جانے والی معلومات کو جانچ سکیں۔ افراد کو یہ سکھانا کہ ان کے الفاظ کے اثرات، باہمی گفتگو کی اہمیت، اور اشتعال انگیز مواد کے شیئر کرنے کے نتائج کیا ہیں، ایک زیادہ شائستہ آن لائن ماحول کو فروغ دینے میں مدد دے سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات علم اور حکمت کے حصول کی وکالت کرتی ہیں، اس لیے اسلامی اصولوں کو تعلیمی منصوبوں میں شامل کرکے، ایک ایسا فریم ورک بنایا جا سکتا ہے جو آن لائن رویے کو اسلامی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔
سوشل میڈیا میں صلاحیت موجود ہے کہ اسے انسانی بہبود اور معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ رواداری اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے کے لیے یہ ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو اپنے معاشرتی مسائل کے حل، فلاحی منصوبوں، اور معاشرتی چیلنجز پر شعور پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں تو یہ امت اور یکجہتی کے اسلامی نظریے کے مطابق ہوگا، جو معاشرت میں تعاون اور ہمدردی کو فروغ دیتا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے دوہرے کردار کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم اس کے استعمال میں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ اظہار رائے اور اشتعال انگیزی کے درمیان حد اکثر دھندلا جاتی ہے، اور اس پیچیدہ میدان میں چلنے کے لیے حکمت، بصیرت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنی گفتگو میں ادب اور حکمت کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پر ہماری آوازیں مثبت انداز میں عوامی مکالمے کا حصہ بنیں۔ تعلیم، قانون اور اخلاقی ذمہ داری کے ذریعے ہم سوشل میڈیا کو احترام اور یکجہتی کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں سوشل میڈیا کو اپنی اقدار کے عکاس اور معاشرتی بہتری کے ایک مو¿ثر ذریعہ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے چیلنجز ہمیں اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کا سبب نہیں بننے چاہئیں؛ بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں حق کی تلاش، اخلاقی کردار اور معاشرتی بہبود کو مدنظر رکھ کر ایسی ڈیجیٹل فضا تخلیق کرنی چاہیے جو احترام، یکجہتی اور باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دے۔ اس طرح ہم ڈیجیٹل دور میں بھی امن اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن رہ سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن