آئینی ترمیم قوم کو نہیں، حکمرانوں کو مبارک ہو!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان   
تجا ہلِ عا رفانہ      
یہ بات تو فلسفی کہتے ہیں کہ بڑا آدمی بننا مشکل نہیں بس اپنے اندر کے چھوٹے آدمی کو مارنا مشکل ہے۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں کے پاس بڑا آدمی بننے کے ایک سو ایک طریقے ہیں۔ جن میں سب سے پہلا اور بڑا طریقہ کرپشن ہے۔کرپشن کو پاکستان میں آرٹ ہی نہیں سائنس کا درجہ بھی حاصل ہے۔ پاکستان میں کرپشن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں خاندان بڑے آدمی بنے ہیں بلکہ بے شمار تو ہمارے سامنے ہی سید پٹھان چوہدری اور مغل بنے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں نو دولتئیو ں کی ایک بڑی کھیپ آئی ہے جنہوں نے پاکستان کی ثقافت اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر رکھتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نیا نیا پیسہ دیکھا ہے بڑی بڑی گاڑیوں کا جنون، ریسٹورنٹس میں کھانے، مہنگے ملبوسات اور قیمتی جوتے جیولری کی نمائش بیش قیمت موبائل سے یہ خود کو خاندانی اور امیروکبیر ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔آپ ان کے پاس بیٹھ کر کو ئی علمی بات کریں تو ان کا دماغ خالی ڈبہ ملے گا ۔عوام میں کرپشن کیوں نہ پھیلتی جب حکمران سیاستدان بیوروکریسی اور تاجر طبقے میں کرپشن کے ذریعے کروڑوں اربوں کھربوں کا چلن پیدا ہو گیا۔ وہ لوگ جو 40 50 سال پہلے کنگلے یا چند ہزار روپے کمانے والے تھے آج اُن کی تجوریاں بینک بیلنس آسمانوں کو چھو رہے ہیں ۔یہ تو سچ ہے کہ کوئی بھی ایماندار آدمی راتوں رات کروڑ پتی نہیں بن سکتا۔ البتہ کرپشن سے آدمی مختصر عرصے میں کروڑپتی بلکہ ارب پتی بن جاتا ہے ۔نواز شریف شہباز شریف آصف زرداری عمران خان فضل الرحمن اسحاق ڈار پچھلے 35 سال سے کوئی کام نہیں کر رہے یہ لوگ ,35 40 سال سے صرف سیاست کر رہے ہیں نہ انہوں نے نوکریاں کی نہ ان کے بزنس ہیں نہ یہ کوئی کام کرتے ہیں ۔چھینک ماریں تو علاج کے لیے امریکہ لندن سوئٹزرلینڈ بھاگتے ہیں ۔سال میں ایک درجن سے زائد ممالک میں بمعہ فیملی مزے اور سیر سپاٹے کے لیے نکل جاتے ہیں ۔تقریبا ًدنیا کے نصف درجن ممالک میں ان کے گھر بلکہ محلات اور بزنس اپارٹمنٹس ہیں۔ تقریبا سوسیاست دان ایسے ہیں جن کے پاس ایک درجن سے زائد گاڑیاں ہیں اور در جن ملازمین ہیں ۔ابھی 26 آئینی ترمیم کا جو کھیل کھیلا گیا ہے اگر اس پر سے پردہ اٹھایا جائے تو پوری قوم بلبلا اٹھے ۔ملک پہ بھوک ناچ رہی ہے لوگ غربت اور مہنگائی سے پاگل ہیں لیکن حکومت کے اللّے تللّے قابو میں نہیں آرہے۔ آئینی ترمیم سے دو ہفتے پہلے کروڑوں یا اربوں ڈالر کی قسط آئی ایم ایف صرف پھپا کُٹنی نے حکومت پاکستان کو جاری کی اور دو ہفتے میں یہ ساری رقم خوشنودی میں اڑا دی گئی۔یہ ساری رقم ارکان اسمبلی سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے خرچ کی گئی لیکن حکومت اس رقم کے تمام اعددادو شمار ثبوت کے ساتھ عوام کو پیش کر سکتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے وصول کیا جانے والا اربوں ڈالر کا قرضہ کہاں خرچ کیا جا رہا ہے۔ حکومت یہ بتانے اور دکھانے سے قاصر ہے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت جو اب چند ماہ سے بھی کم کی مہمان ہے وہ اربوں ڈالر کے خورد برد کر کے کیا حساب دے گی ۔یہ قرضہ کیا حکمرانوں کے اثا ثے بیچ کر ادا کیا جائے گا۔ موجودہ حکمران اپنی عیاشیوں کے لیے آئی ایم ایف سے دھڑا دھڑ قرضے لے رہے ہیں جن سے عوام کو ٹکے کا فائدہ نہیں ہے۔ پھر یہ قرضہ عوام کیوں اتاریں ۔تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ ابھی جو شنگائی تعاون تنظیم کی میزبانی کر کے ذاتی تعلقات بڑھانے کی خاطر جو اربوں روپیہ گار امٹی کیا گیا ہے کیا عوام کو اس سے ٹکہ برابر فائدہ ہوا ہے ۔کون سے معاہدے اور کیسے معاہدے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔بس ایک فوٹو سیشن تھا قیمتی ملبوسات پہن کر گروپ فوٹو بنوا لیے۔ عوام کو شنگائی کانفرنس سے کیا ملا ؟اب اس سوال کی طرح آئیں کہ عوام کو آئینی ترمیم سے کتنے دھیلے کا فائدہ پہنچا ۔کتنے نفلوں کا ثواب ملا سب کچھ مرضی کے فیصلوں کے لیے کیا گیا ۔حال ہی میں پیرو کے سابق صدر کو 20 سال چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔یہاں سیاست دانوں کا گروہ پورا پاکستان بیچ کر کھا گیا نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگے ثبوت پیش کیے گئے ,10 12 والیوم جو صندوقوں میں تھے وہ سامنے لائے گئے لیکن کچھ عرصے بعدیہ سارے محض الزامات تھے۔ سارے ثبوت بے بسی سے منہ دیکھتے رہ گئے آصف زرداری اتنے عرصے جیل میں رہے ان پر بے پناہ کرپشن کے الزامات لگے اور انہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن پھر آصف زرداری باعزت طریقے سے بری ہو گئے بلکہ وہ لوگ معززطریقے سے صدر اور وزیراعظم بن گئے ۔جبکہ عمران خان پر بے شمار سنگین الزامات ہیں اور وہ ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ۔ بشری بی بی پر کرپشن ثابت ہوئے لیکن انہیں نیک پروین کا ٹیگ لگا کر چھوڑ دیا گیا ۔علیمہ خان پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں مگر وہ بھی سابق وزیراعظم کی بہن ہونے کے ناطے بری ہو گئیں ۔برسوں سے عدالتوں میں یہی کھیل چل رہا ہے ۔بڑے سے بڑے گناہ گار اور جرائم یافتہ لوگ بھی اپنے جرم ثابت ہونے پر بھی باعزت بری کر دئیے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قتل اغوا، زیادتی پر بھی مجرم دن دناتے ہوئے جیلوں سے باہر ا ٓجاتے ہیں۔ کرپشن کے تمام کیسز میں سارے مجرم رہا ہو جاتے ہیں لیکن ایک غریب آدمی اپنے بھوکے بلبلاتے بچوں کے لیے مجبور ہو کر ایک کلو آٹا چوری کر لے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ کئی سال نہ کردہ گناہوں کی سزا بھگتا ہے۔ اسے چور اور مجرم کہا جاتا ہے۔ ایک لڑکا پیپر دینے کے لیے جلدی میں ہیلمٹ یا لائسنس بھول جاتا ہے تو اسے روک کر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اور دلائل دینے پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ تو ایسا ہے ہمارا آئین اور قانون یہ ہے ہماری عدالتوں کا انصاف کسی -20 22 سال لڑکی کو اپنے جنونی اور ناہنجار شوہر سے خلا لینا ہو تو اکثر کئی سال نکل جاتے ہیں اور پھر اس معصوم مظلوم لڑکی سے کوئی شادی کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ہماری عدالتوں میں زمین و جائیدادوں کے کیس کئی دہائیوں تک چلتے ہیں کیس دائر کرنے والے انصاف لیے بغیر مر جاتے ہیں ۔آج تک کبھی کوئی عدالت کسی غریب سائل کے لیے آدھی رات کو نہیں کھلی اگر عدالتیں انصاف کے لیے ہیں تو پھر اس میں غریب امیر کی کیا تخصیص ہے۔ غریب تمام ثبوت اور شواہد پیش کر کے بھی انصاف نہیں پاتا اور ہمارے حکمران سیاست دانوں کی انکی مرضی خواہش اور پسند سے ان کی دہلیز پر دیا جاتا ہے ۔آئینی ترامیم کا فائدہ صرف حکمرانوں کے لیے کیا گیا ہے عوام کو دتو ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچا ۔فیصل واڈا نے صحیح کہا ہے کہ بشری بی بی 100 فیصد ڈیل کے نتیجے میں رہا ہوئی ہیں۔ وزیراعظم مسلسل یہ لطیفہ سنا رہے ہیں کہ آئینی ترمیم سے سیاسی و معاشی استحکام آئے گا ۔یہ سیاسی اور معاشی استحکام تو آپ لوگوں کی زندگیوں میں ا ٓرہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ سعودیہ چلے گئے جسٹس قاضی فائز عیسی سویٹزرلینڈ نکل گئے ۔محسن نقوی ترکی چلے گئے حالانکہ وہ وزیر خارجہ نہیں وزیر داخلہ ہیں۔ نواز شریف دبئی سے لندن اور اب لندن سے امریکہ چلے گئے ۔اسحاق ڈار کا سر کڑاہی میں بلکہ دھڑ بھی کڑاہی میں ہے وہ بیک وقت نصف درجن ممالک کی سیر پر نکلے ہوئے ہیں ۔وزیراعظم قطر اور صدر روس جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔دو درجن ارکان پارلیمنٹ ایک ایک ارب روپیہ لے کر فیملی کے ساتھ من پسند ممالک کی طرف چل پڑے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے ٹھیک کہا ہے کہ حکومت مرضی کی عدلیہ چاہتی تھی پیسے کے زور پر من پسند عدلیہ بنا لی مرضی کے فیصلے ہوں گے حکمرانوں کو پیسوں کی کیا ٹینشن آئی ایم ایف نے بھی ابھی ڈالروں سے بھرے ہوئے کنٹینر بھیجے ہیں ۔اب آئی ایم ایف اور چین پاکستان میں 13 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے نام پر حکمرانوں کی عیاشی کے لیے رقم بھیجیں گے آئی ایم ایف سے تو پاکستان ماحول یاتی آلودگی کے نام پر کئی ارب ڈالر مانگ رہا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی ہزاروں لاکھوں ڈالر لے کر اگلے سال پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ سعودیہ اور چین سے چھ چھ مرتبہ اربوں ڈالر بھیک مانگ لی جاتی ہے۔ ایشیائی بینک 50 کروڑ ڈالر کی قسط بھیج رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین سے بھی رقمیں آنے والی ہیں۔ حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہیں اس لیے 26 آئینی ترمیم قوم کو نہیں، حکمرانوں کو مبارک ہو ۔ وارے نیارے تو حکومت کے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن