میاں نوازشریف علاج کیلئے لندن روانہ‘ مخالفین کا سوشل میڈیا پر شور۔
ایک طویل تھکا دینے والے سیاسی میچ میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ نون کے قائد میاں نوازشریف بسلسلہ علاج براستہ دبئی، لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ یوں ”خوش رہو اہل چمن‘ ہم تو سفر کرتے ہیں“ کے مخالفانہ جملوں کے باوجود انکے ورکر اور متوالے انکی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے‘ باوجود اسکے یہاں پانی‘ بجلی‘ گیس‘ خوراک اور روزگار کا بحران بھی ایک روگ مسلسل کی طرح مسلط ہے‘ اس طرح صحت و تعلیم کی اعلیٰ سہولتیں بھی شاید یا حقیقت میں بہت کم ہیں جبھی تو ہماری مراعات یافتہ اشرافیہ کے بچے پڑھنے کیلئے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔ اس طرح بیماریوں کے علاج کیلئے امریکہ اور برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ بے شمار خوشحال خاندان تو وہاں رہائش بھی رکھتے ہیں۔ اب میاں نوازشریف کے مخالفین انکی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے جو سوشل میڈیا پر شور مچا رہے ہیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہمیشہ کے لئے گئے ہیں۔ انکے مخالفین نے اپنے دور حکومت میں زیادہ تر زور سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں پر دیا۔ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پہلی دفعہ کسی حکومت نے تنخواہ پر ایسے لوگ بھرتی کئے جو سوشل میڈیا پر انکے حق میں کام کر رہے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اتفاق ہسپتال ہو یا شوکت خانم‘ پمز ہو یا آغاخان ہسپتال‘ انکے علاوہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہسپتال پاکستان میں موجود ہے۔‘ کیا ان میں بہترین علاج کی سہولت نہیں‘ کیا یہ صرف عوام الناس کو خوش کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ جہاں ان سے بھاری فیسیں بٹور کر بہترین علاج کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ صاحب حیثیت لوگ آج بھی مئے خانہ یورپ کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جام صحت نوش کرتے ہیں۔ جہاں کے مئے خانے ساقی اور جام پر ان کو بہت اعتماد ہے اور ملک کے عوام پیراسٹامول‘ پیناڈول سے آرام نہ آئے تو جھاڑ پھونک‘ اور جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ رہے حکیم حضرات تو وہ اب صرف کشتے بنانے کے قابل ہی رہ گئے ہیں اور اسی آئٹم سے وہ نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔
ڈیفنس لاہور میں ڈاکوﺅں نے جیمر لگا کر گھر لوٹ لیا۔
جیسے جیسے نت نئی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہے‘ جرائم کی دنیا میں بھی نئی نئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ علی بابا چالیس چور‘ سلطانہ ڈاکو‘ نک ویلوٹ کے قصے اب پرانے ہو چکے ہیں‘ اب نت نئے طریقوں سے واردادتیں ہونے لگی ہیں۔ اگر سکیورٹی کیمروں نے ڈاکوﺅں اور چوروں کو پریشان کر رکھا ہے تو اس کا توڑ بھی اب ان ڈاکوﺅں نے نکال لیا ہے۔ اس طرح جس طرح جگہ جگہ لگے ناکوں سے تنگ آکر منشیات فروش اور ناجائز اسلحہ فروخت کرنے والے ڈرون استعمال کرکے ناکوں سے نجات پا چکے ہیں اور کام بھی آسان ہو گیا ہے‘ گزشتہ روز ڈیفنس کے پوش علاقے میں ڈکیتی کی ایک بڑی واردات ہوئی‘ اب ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں بڑے بڑے گھر ہیں‘ وہاں واردات بھی بڑی ہی ہوئی ہوگی۔ ان علاقوں میں وارداتیں کرنے والے ڈاکو بھی للوپنجو نہیں ہوتے۔ جیسے اس واردات میں دیکھ لیں۔ اس پانچ رکنی ڈکیت گینگ نے کیسا کمال دکھایا۔ جیمر لگا کر پہلے علاقے میں وائی فائی اور انٹرنیٹ بند کر دیا‘ موبائل فون ڈیڈ کر دیئے تاکہ اردگرد دور دور تک کوئی اطلاع نہ دے سکے۔ اسکے بعد انہوں نے بڑے سکون سے اتنی بڑی واردات مکمل کی۔ اس جیمر کی بدولت یہ اطمینان سے براہ راست موٹروے لاہور سے باہر نکل گئے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی واردات نہیں‘ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ ڈاکو گینگ کی چوتھی یا پانچویں واردات ہے۔ اب پولیس کو بھی جدید طریقہ تفتیش اپنانا ہونگے تاکہ ان کو پکڑا جا سکے۔ روایتی پرانے طریقہ سے تو اب یہ جدید ماڈرن ڈاکو ہاتھ آنے سے رہے۔ اب یہ نئی راہ کھلنے سے کہیں باقی ڈاکو بھی شیر نہ ہو جائیں اور وارداتوں میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگیں۔ پہلے ہی پولیس کی کارکردگی پر بہت باتیں ہوتی ہیں‘ اب نئے نئے افسانے بنیں گے۔ اس لئے حکومت بھی پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرائے۔
امرتسر کی طرف سے آنے والے سموگ نے لاہور کو نشانے پر لے لیا‘ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔
حکومت پنجاب تو اپنی طرف سے سموگ کے خاتمے کیلئے بہت کوششیں کررہی ہے۔ دھواں پھیلانے والے بھٹوں‘ گاڑیوں‘ کچرا جلانے والوں اور آلودگی پھیلانے والے کارخانوں اور فیکٹریوں کیخلاف ایکشن لیا جارہا ہے‘ مگر اسکے باوجود لاہور اس وقت دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں پہلے نمبر پر جا رہا ہے۔ صرف نئی دہلی اسکے مقابلے میں آرہا ہے‘ کبھی کبھی وہ پہلے نمبر پر آجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک بارش نہیں ہوتی‘ سموگ جاری رہے گی۔ حکومت پنجاب نے تو مصنوعی بارش کی بھی تیاری شروع کی تھی‘ خدا جانے وہ کہاں تک پہنچی۔ اس وقت بھارتی پنجاب میں وہاں کے کسان فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں جس کی وجہ سے دھواں ایک ناگہانی آفت کی طرح پاکستانی پنجاب کا رخ کرتا ہے اور اس وقت لاہور میں جو دن کو بھی رات کا سماں نظر آتا ہے‘ اسکی وجہ بھی امرتسر کی طرف سے آنیوالا یہی کثیف دھواں ہے جس نے یہ تباہی مچا رکھی ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ جسے دیکھو‘ نزلہ‘ زکام‘ کھانسی‘ الرجی‘ سانس اور آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہے۔ بچے‘ بوڑھے اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارے صوبے میں بھی سختی کے باوجود کہیں کہیں فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہیں۔ اس وقت اس سموگ کے خاتمے کیلئے دعائیں کی جائیں کہ خدا کرے بارش ہو اور اس سموگ سے جان چھوٹے۔ ہمیں خود بھی اس پر قابو پانے کیلئے حفاظتی انتظامات اپنانے ہونگے۔ ورنہ جس طرح بارش میں بھارت پاکستان کی طرف آنیوالے دریاﺅں میں پانی چھوڑتا ہے اور ہم سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں‘ اسی طرح اس موسم میں بھارت سے آنیوالے دھوئیں سے سموگ کا طوفان ہمیں اپنی لپیٹ میں لیکر پریشان کرتا ہے اور ہم بے چارے ”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے“ کے مصداق سوچ سوچ کر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے کمزور بوڑھے‘ بچے اس موسم میں ماسک کا استعمال کریں تو بہتر ہے۔ انہیں جلد موسمی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ ڈینگی اور ملیریا الگ پریشان کرتے نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سکرین سے فیصل چودھری آﺅٹ‘ شیر افضل مروت اِن۔
ایک وکیل پی ٹی آئی کے کپتان کو جیل میں سہولتیں مہیا کرنے کیلئے ایک پرتاثیر نوحہ بہ شکل درخواست لکھ کر عدالت میں داخل کرتا ہے جسے پڑھ کر مضبوط دل والا بھی پسیج سکتا ہے۔ مگر ابھی وہ درخواست دیکر واپس آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تونام ہی کھلاڑیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ لیگل ٹیم سے فارغ ہیں‘ بقول شاعر
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تو بھی شامل تھا کبھی میری تمناﺅں میں
یہ موصوف فیصل چودھری برادر فواد چودھری نے بقول راوی، جیل میں بند کپتان سے پارٹی کے متعدد رہنماﺅں کی شکایت لگائی تھی اور کپتان کو ان دو نمبر کھلاڑیوں کی دونمبری سے آگاہ کیا تھا۔ اس کا نتیجہ اب انکے سامنے ہے۔ انہیں دودھ میں سے مکھی یا مکھن سے بال کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہی ہے کہ وہاں مرشد کے حکم پر یا انکے کان بھرنے پر یا کسی کو بھی حق گوئی و بے باکی پر یک بینی و دو گوش باہر نکال دیا جاتا ہے۔ فواد چوھدری کوشش کر رہے تھے کہ واپس مرشد کے تکیے پر جاکر پھر حلقہ بگوش ہو جائیں۔ مگر اب مشکل ہے۔ مگر ایڈوکیٹ فیصل بضد ہیں کہ وہ کپتان کے ایڈوائزر ہیں اور رہیں گے۔ دوسری طرف شیرافضل مروت بھی پے در پے معطلیوں اور معافیوں کے بعد ایک بارپھر فارم میں آگئے ہیں۔ اس بار انہوں نے براہ راست وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو نشانے پر لیا ہے اور کہا ہے کہ بانی کی رہائی کی تحریک کی ناکامی کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ انہیں رہائی تحریک سے دور رکھا جائے۔ انکی حکومت کے وزراءجی بھر کر کرپشن کر رہے ہیں۔ اس لئے ان سے محتاط رہاجائے۔ اب واقف کار کہتے ہیں بشریٰ بی بی‘ عظمیٰ خان‘ علیمہ خان کی رہائی سے جو افہام و تفہیم جسے نرم الفاظ میں ڈیل کہہ سکتے ہیں‘ اسکے بعد شاید ایسا کچھ بھی نہ ہو کہ شور اٹھ سکے۔ جبھی تو وزیر اعلیٰ خیبر پی کے نئے چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری میں ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ہال میں جا کر اپنی کرسی پر براجمان ہوئے تھے۔ وہ تو جسٹس منصور کے علاوہ کسی اور کو بنانے پر ملک بند کرنے کی دھمکیاں دیتے پھرتے تھے۔