وزیراعظم شہبازشریف سے گزشتہ روز پپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں ملاقات کی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے دونوں قائدین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم غیرجمہوری طاقتوں کا راستہ روکنے میں کارگر ہوگی۔ اس ملاقات میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف بھی بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ معاشی اشارے مثبت ہونے سے مہنگائی میں واضح کمی نظر آرہی ہے‘ انکے بقول ہم پہلے بھی عوامی خدمت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ دوران ملاقات بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے ہم مل کر چلیں گے۔ انکے بقول 26ویں آئینی ترمیم کے بعد وزراءاعظم کو گھر بھجوانے کا راستہ رک جائیگا۔ ہم سندھ کی ترقی کیلئے بہت کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ اس ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناءاللہ بھی موجود تھے۔
بلاشبہ 26ویں آئینی ترمیم لانے کا مقصد موجودہ سیٹ اپ کو برقرار رکھنے اور سسٹم کو ٹریک پر چڑھائے رکھنے کا ہی تھا کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے آٹھ فاضل جج مخصوص نشستوں کے کیس میں صادر کئے گئے اپنے فیصلہ کو ہرصورت لاگو ہوتا دیکھنا چاہتے تھے جس کیلئے جسٹس منصور علی شاہ نے ذاتی طور پر بھی امریکہ اور پاکستان کی مختلف تقاریب میں متذکرہ فیصلہ پر عملدرآمد لازمی آئینی تقاضا قرار دیا اور عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ کے متذکرہ آٹھ ارکان کی جانب سے دوبار اپنے فیصلہ کی وضاحت بھی کی گئی۔ سینئر پیونی جج کی حیثیت سے جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز ہونا تھا اس لئے حکومتی اتحادی فکرمند تھے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے بعد انکی حکومت کی بساط ہی الٹ جائیگی چنانچہ انہوں نے ہر ممکن جتن کرکے اور پورا زور لگا کر 26ویں آئینی ترمیم منظور کرائی جس کے تحت سپریم کورٹ کے ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیاں کرکے آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں لانے کے علاوہ چیف جسٹس کے تقرر کا طریق کار بھی تبدیل کر دیا گیا جس کے تحت اب جسٹس منصور علی شاہ کی بجائے جسٹس یحییٰ آفریدی کا بطور چیف جسٹس تقرر عمل میں آچکا ہے۔ انکے تقرر پر حکومتی اتحادی ہی نہیں‘ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی بھی مطمئن ہے۔ اس تناظر میں اب حکومتی اتحادیوں کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل میں دھنسے عوام کو ان مسائل میں ہرصورت اور مستقل ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ عوام کا حکومت‘ ریاست اور سسٹم پر اعتماد پختہ ہوسکے۔ اس کیلئے پیپلزپارٹی کا حکومت سے لاتعلق رہنا ہرگز مناسب نہیں‘ اسے حکومتی محاسن اور خرایبوں سمیت موجودہ سیٹ اپ کے تمام معاملات کی یکساں ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تاکہ حکومتی اتحادیوں میں کسی قسم کے اختلافات کا تاثر قائم نہ ہو۔
وزیراعظم شہبازشریف اور بلاول کی ملاقات
Oct 29, 2024