”تم درد محسوس کرتے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ زندہ ہو اور اگر دوسروں کا درد محسوس کرتے ہو تو تم انسان ہو“۔ مشہور روسی ادیب لیوٹالسٹائی کے اس جملے کو معیار سمجھ کر اکثر اپنا اور معاشرے کا جائزہ لیتا ہوں تو نہ جانے کیوں ریکارڈ ساز فلم ٹائٹینک (Titanic) کا آخری سین میرے ذہن کی چار دیواری پر رقصاں ہو جاتا ہے۔ وہ سین جب ہولناک رات کی ہلچل کے بعد موت کا سکوت طاری ہو جاتا ہے اور ریسکیو کا عملہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتا ہے کہ ”ہے کوئی زندہ کوئی تو بولے کوئی تو جواب دے“۔ کبھی میرے ذہن کے دریچے میں کسی چینل پر دیکھے کسی جنگل کا منظر ناچنے لگتا ہے جہاں جانوروں کے کسی گروہ کے ایک رکن کو تکلیف پہنچتی ہے تو باقی سارے ارکان اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
لگتا ہے ہمارے معاشرے میں انسانوں کو پکارتی فریاد در در ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے۔ نادان بن کر ایک ایک دروازے کے باہر صدا لگاتی ہے لیکن انسان تو انسان اسے کوئی جانور بھی نہیں مل پاتا اور وہ جیسے نامراد گئی تھی ویسے ہی واپس آ جاتی ہے۔ کوئی جواب آئے بھی تو کہاں سے کہ آدھی آبادی تو خط غربت کے نیچے ڈوب کر موت سے بھی بدتر زندگی گزار رہی ہے اور باقی بچی آدھی کی اکثریت خط غربت سے چمٹ کر اپنی سانسوں کی ڈور کو برقرار رکھنے کی کوشش میں سہمی سمٹی بیٹھی ہے کہ نہ جانے کب مہنگائی کا، بلوں کی ادائیگی کا اور ایسے ٹیکسوں کے” قرضوں“ کا جو واجب بھی نہیں ہیں ایک جھٹکا لگے اور وہ چاروں شانے چت خط غربت سے نیچے جا گرے۔ درست کہ محنت کا صلہ اہل خیانت سے کون مانگے کہ احسان دانش درست فرما گئے ہیں اور وہ یہ کہ مردے کبھی قبروں کی کھدائی نہیں دیتے۔ بہر حال مرتی ہوئی اس مخلوق پر کچھ تو نگاہِ کرم ہونی چاہئے لیکن یہاں تو ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اس سب پر بھی موقوف نہیں بلکہ یہاں تو عقاب نما گِدھوں کے ایسے ڈیرے ہیں جو اپنی عیاشیوں کیلئے ہر گھڑی ”تازہ چراغوں“ کا لہو پینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ بازو تولے ہوئے منڈلائے ہوئے آتے ہیں اور نحیف و ناتواں جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر فاتحانہ ترانے گاتے چلے جاتے ہیں۔ ان عقاب نما گِدھوں کو ناتوانوں کے نوالے کھاتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی بلکہ ان کے درمیان زیادہ لوٹنے زیادہ نوچنے کا سفاک مقابلہ جاری رہتا ہے کیونکہ آخر زیادہ نوچنے کھسوٹنے والے کو سردار بھی تو بننا ہوتا ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ مذہب کی مغربی سکالر اور چاند پر پہلا قدم رکھنے والے نیل آرمرسٹرانگ کی بیوہ ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن کے دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اپنی مشہور زمانہ کتاب یروشلم (Jerusalem ) میں لکھتی ہیں کہ صلیبیوں کی یروشلم (بیت المقدس) کی فتح کیساتھ ہی گلیوں بازاروں میں خون کی ندیاں بہہ گئیں اور ہر طرف بے گوروکفن نعشیں دکھائی دینے لگیں۔ اتنا خون بہا کہ گھوڑوں کے گھٹنے تک اس میں ڈوب گئے۔ اسی طرح عباسیوں نے امویوں کی حکومت ختم کی تو نعشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھایا۔ ہمارے ملک کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے یہاں غربت سے نیچے گرنے والوں کے بے گوروکفن لاشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانے تو نہیں کھائے جاتے کہ گرنے والوں کے ساتھ اتنا نیچے کون گرے لیکن خط غربت سے نیچے زندگی کی سانسیں پوری کرنے والوں سے اشرافیہ کو مہیا کی جانیوالی مفت بجلی، پٹرول، جہازی سائز گاڑیوں اور محلات کے دام وصول کرنے کی ضیافتیں ضرور اڑائی جاتی ہیں۔
ہر طرف ایسی بے حسی کا راج ہے کہ بنگلہ زبان کا افسانہ یاد آ جاتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ گھر کا واحد کفیل انتقال کر جاتا ہے کمسن بیٹا، بیٹی اور بیوی کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ دستور کے مطابق گاو¿ں کا چودھری تین روز تک اچھا کھانا بھجوانے کا پابند ہوتا ہے جب تیسرے روز آخری اچھا کھانا آتا ہے تو بچہ کھانا کھاتے ہوئے انتہائی بے حسی کے ساتھ اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ اس کی بہن کب مرے گی کیونکہ بہن کے مرنے پر تین روز تک پھر اچھا کھانا آئے گا۔
برطانوی سیاسی مفکر تھامس ہابز کی کتاب لیویاتھن (Leviathan) کو کون بھول سکتا ہے۔ جس میں وہ بھرپور دلائل دیتا ہے کہ انسان فطرتاً برائی، فساد اور چھینا جھپٹی کے خمیر سے بنا ہے وہ ایک دوسرے پر چڑھائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کسی بھی چیز کو دوسروں کے ہاتھ لگنے دینے سے زیادہ تباہ کر دینے پر یقین رکھتا ہے انسان ہے ہی جھگڑالو اور ذاتی فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والا۔ ممکن ہے انسان ایسا ہی ہو لیکن کئی معاشروں نے بڑی بڑی تباہی کے کھیل رچا کر، بہت ہولناکیوں سے گزر کر اپنی اصلاح کی ہے وہ اب مثالی معاشرے اور ملک ہیں اور بہت حد تک تھامس ہابز کے نظریات کو مات دیکر انسانیت کو گلے لگا چکے ہیں۔ ان معاشروں میں اعلیٰ انسانی قدریں ہر طرف روز روشن کی طرح عیاں ہیں وہ محض ایک فرد کے ذاتی مفاد کیلئے چھینا جھپٹیوں اور لوٹ مار سے نفرت کرتے ہیں یہ معاشرے اعلیٰ انسانی قدروں کے ساتھ پھل پھول رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہر روز زوال کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور اپنی صورت کو اس حد تک بگاڑ لیا ہے کہ دیکھنے والے بھی ہاتھ ملتے ہیں اور عبرت سے نظریں دوسری طرف موڑ لیتے ہیں۔ ایسے انجان بن کر جیسے جانتے ہی نہیں۔
ہزاروں برس فاتحین کا دستور رہا کہ انتہائی پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے تھے دنیا کے ساتھ ہمارے معاملات بھی کچھ ایسے ہی دکھائی پڑتے ہیں عالمی برادری میں اب ہمیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا البتہ کوئی ترس کھا لے تو یہ اس کا کمال ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے جیتے جاگتے آگے بڑھتے انسانوں کی اس دنیا نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جو چند ہمدرد دوست ابھی بھی ہمیں زوال کی دلدل سے نکالنے کیلئے کوشاں ہیں ہم انہیں بھی متواتر بڑی محنت سے ناراض کرنے میں لگے ہیں اور منزلوں سے کوسوں دور بار بار راہوں کو چھانتے پھر رہے ہیں یا راستوں کو ہی منزل سمجھ کر ڈیرے ڈال بیٹھے ہیں۔
چلتے چلتے یونیسیف کی ایک رپورٹ کا ذکرہوجائے جوبتاتی ہے کہ 47 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے اداس دیس میں پنجاب کے 8 لاکھ، سندھ کے 7 لاکھ، کے پی کے 3 لاکھ اور بلوچستان کے 5 لاکھ قوم کا مستقبل بچے ہر رات آنکھوں میں سہانے خواب سجائے بھوک کے ڈراو¿نے مناظر میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان کا پرسان حال کون ہوگا جو دبے پاو¿ں” امیدوں “کا چراغ لیکر انکے پیٹ بھرے گا اور پورے ملک کے ڈھائی کروڑ بچوں کو سجا سنوار کر سکول کا راستہ دکھانے والا کب آئیگا۔ اوریہ سب بچے ماں جیسی ریاست کی گود میں سر رکھ کر اپنے سہانوں خوابوں کی تعبیرکب دیکھیں گے۔ اپنے حالات پر نظر ڈالیں جو مسدس حالی سے زیادہ ضمیر جعفری کی مسدس بدحالی بن چکے ہیں۔
آخر ہم انسان ہیں ناجائز خواہشوں میں لتھڑے عصمت چغتائی کا افسانہ ”لحاف“ تو نہیں ہیں جو اپنے حالات پر نظر ڈال کر بہتری کی کوئی صورت نہ نکال سکیں۔
حالی درست کہتے ہیں کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو، جس کے دل میں بہتری کے ارمان نہ مچلتے ہوں اور جواچھے مستقبل کے خواب دیکھ کر عمل کا ڈول ڈالنا نہ جانتی ہو۔ کام ناممکن تو نہیں ہاں مشکل ضرور ہے۔ ایسے ہی غالب کا شعر یاد آ گیا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا