ہمارے خاں صاحب خود کو مائنڈ گیم یعنی دماغ سے کھیلنے کا ماہر کہتے ہیں اور ان کے چاہنے والے اس پر یقین رکھتے ہیں۔ خاں صاحب کی سیاست کو بغور دیکھیں تو ان کی سیاست ہے ہی مائنڈ گیم۔ دوسروں کے دماغ سے کھیلنے کی سیاست۔ اور ان دوسروں میں ان کے اپنے کارکن اور چاہنے والے بھی شامل ہیں۔ ان کی وزرات عظمی کے دور میں کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد ایک وزیر صاحب سے ملاقات کے دوران وزیر صاحب طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولے کہ خان صاحب نے فرمایا ہے کہ آپ کا وزیر اعظم ایک برینڈ ہے، اسے ایک برینڈ کے طور پر پروجیکٹ کریں۔ ان وزیر موصوف کی بات کی تصدیق یوں ہوگئی ۔
جب اگلے چند روز تک کئی وزراءنے اپنی گفتگو میں خاں صاحب کے لیے برینڈ کا لفظ استعمال کیا۔ خاں صاحب کو اپنی تعریف اور مخالفین کے لیے برے بھلے القابات سننے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ وزرات عظمی کے دور میں انھیں کور کرنے والے ایک صحافی دوست نے ایک بار بتایا کہ جب ہم نے حسب معمول وزیراعظم آفس سے خاں صاحب کی مصروفیات کا شیڈول حاصل کیا تو اس میں ان کی ایک بچی سے ملاقات بھی طے تھی۔ بچی کی اہلیت یا اعزاز کیا تھا جس کی وجہ سے خاں صاحب اس سے ملاقات کرنے والے تھے یہ اس شیڈول میں درج نہیں تھی ملاقات کے بعد جب تفصیلات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ وہ بچی مریم نواز کی نقل بڑی اچھی اتارتی تھی جس کی وجہ سے عمران خان نے اس سے ملاقات کی۔ دراصل خان صاحب نے اقتدار سے پہلے جو سیاست کی اس کی یہی لائن تھی کہ مخالفین کو تسلسل کے ساتھ چور، ڈاکو، کرپٹ کہا جائے۔ خاں صاحب کی جماعت کے اب سابقہ ہو جانے والے کئی رہنما یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں کہا جاتا تھا کہ جہاں بھی بولنے کا موقع ملے مخالفین کے لیے چور ڈاکو جیسے القابات کا استعمال تواتر کے ساتھ کیا جائے۔ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں تو نفرت کا زہر بھرا گیا لیکن اس زہر کے اثرات خاں صاحب میں بھی اتنے سرایت کر گئے کہ اقتدار ملنے کے بعد بھی وہ اس سے نہ نکل سکے۔
امریکا اور دوسرے بڑے ملکوں میں بھی انتخابی مہم کے دوران مخالفین ایک دوسرے کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن الیکشن ہوگئے تو سب ختم پھر ساری توجہ حکومت پر دی جاتی ہے لیکن خاں صاحب وزیراعظم بنے تو پہلی تقریر میں مخالفین کو للکارا کسی کو بھی نہ چھوڑنے، معاف نہ کرنے کا اعلان کیا، پہلے کابینہ اجلاس کا پہلا فیصلہ سیاسی مخالفین کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا تھا اور پھر اگلے ساڑھے تین سال یہی چلتا رہا ان کے تمام رہنما بھی، چھوڑیں گے نہیں، این آر او نہیں دیں گے میں لگے رہے کابینہ اجلاس کے بعد کسی عوامی منصوبے کی منظوری کی بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف کسی نئی کارروائی شروع کیے جانے کا اعلان کیا جاتا۔پھر تحریک عدم اعتماد آگئی تو خان صاحب نے یہاں بھی مائنڈ گیم کھیلی۔ کہہ دیا وہ تو چاہتے تھے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے اب تو وہ اگلا آلیکشن جیتیں گے مخالفین ان کی بندوق کی شست پر آگئے ہیں وہ انھیں سرپرائز دیں گے وغیرہ۔
ان کے اتحادی تو پرانے سیاسی کھلاڑی تھے وہ تو اس گیم میں نہ آئے لیکن ان کے سادہ لوح کارکنوں نے یقین کرلیا اور بیٹھ گئے خان کے “سرپرائز “ کے انتظار میں۔ سرپرائز تو الٹا آگیا حکومت چلی گئی اب خان صاحب نے تمام ممکنہ چیزوں کو پیش گوئی بنا کر پیش کرنے کی گیم کھیلنا شروع کردی۔ کہہ دیا کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لائیں گے میرے خلاف کیسز بنائیں گے مجھے جیل میں ڈالیں گے وغیرہ، مقصد یہی تھا کہ وہ مستقبل میں ایسے تمام ممکنہ اقدامات کو متنازعہ بنادیں، انھیں خدشہ محسوس ہوا کہ ان کی کوئی متنازعہ ویڈیو سامنے آسکتی ہے تو جلسوں میں کہنا شروع کردیا کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کی ویڈیوز بنائی جائے گی الیکشن سے پہلے کہہ دیا کہ انھیں دھاندلی سے ہروایا جائے گا، کبھی کہہ دیا کہ انھیں قتل کروادیا جائے گا،۔
فیض حمید کو فوج نے حراست میں لیا تو خان صاحب نے فوری کہہ دیا کہ اس گرفتاری کو جواز بنا کر ان کا بھی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا، خان صاحب خود کو مائنڈ گیم کا ماسٹر تو کہتے ہیں لیکن ان کی یہ مائنڈ گیمز ان کو اب تک کیا فائدہ دلاسکی ہیں؟ جواب ان کے حق میں زیادہ تسلی بخش نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سبھی مائنڈ گیمز کھیلتے ہیں آپ گھر سے نکلیں تو ”صرف آپ کے لیے اس قیمت پر“ کا لالچ دینے والے دکاندار سے لے کر ایک ہزار کی بجائے قیمت صرف 999 روپے کی تشہیر کرنے والے برینڈز سبھی تو مائنڈ گیمز ہی کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن جب دوسرا آپ کے مائنڈ کو سمجھ جائے تو گیم الٹی پر جاتی ہے۔
بات یہی ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہروقت بیوقوف نہیں بنا سکتے یعنی سادہ لفظوں میں بیوقوف بنانے کی بھی ایکسپائری ضرور ہوتی ہے اور سمجھنے کی بات ہے کہ ہماری بہت سی مائنڈ گیمز بھی اب ایکسپائر ہوچکی ہیں۔ خاں صاحب کی مائنڈ گیمز بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔
٭....٭....٭