پاکستان تجربات کی آماجگاہ ہے جب سے پاکستان بنا ہے ہم آئے روز نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی نظام مستقل بنیادوں پر پنپ نہیں سکا۔ ہر صاحب اختیار نے آئین میں ترمیم کرکے ریاست کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی یا اپنے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینے کی کوشش کی۔ جس کے پاس بھی اختیار رہا اس نے اپنے چمڑے کے سکے چلائے۔ کئی بار الیکٹرول سسٹم تبدیل کیا، کھبی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے 58 ٹو بی کو لے کر آئے کہ اسکے ہوتے ہوئے مارشل لاءنہیں آ سکے گا۔ جب 58 ٹو بی ہر دو اڑھائی سال بعد حکومت کھانے لگا اور 1985ءسے 1997ءتک چار حکومتیں کھا گیا تو خیال آیا کہ آئین کی یہ شق درست نہیں۔ 58 ٹو بی کو آئین سے نکالنے کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کو ایسے گھر بھیج دیا کہ کسی نے چوں چراں نہ کی۔ پھر 18 ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے آئین کا ڈھانچہ ہی بدل دیا۔ سیاسی جماعتوں نے صوبے آپس میں تقسیم کر لیے اور کہا کہ تم سندھ نہ آنا ہم پنجاب میں نہیں آئیں گے۔ صوبوں کو اختیار دینے کے چکروں میں وفاق کو ٹکے ٹوکری کر دیا۔ سیاستدان سمجھنے لگے کہ ہم نے طاقت کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے اب مداخلت کے سارے راستے بند ہو گئے ہیں لیکن پھر وزیراعظم عدالتوں کے ذریعے گھر جانے لگے۔ سیاستدانوں کا احتساب بذریعہ عدالت ہونے لگا۔ نااہلیاں اور اہلیت کے فیصلے بھی عدالتوں میں ہونے لگے۔ عدلیہ ایک خود مختار نظام کے تحت بہت مضبوط ہو گئی اور عدلیہ میں سیاستدانوں کی مداخلت کا راستہ بند ہو گیا۔ ججوں کی تعیناتی سے لے کر انکی پوسٹنگ ٹرانسفر ریٹائرمنٹ سب ایک خودمختار سسٹم کے تحت ہونے لگا تو سیاستدانوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ عدلیہ کو قابو کیا جائے۔ عدلیہ کو با اختیار بنانے میں جو جدوجہد افتخارِ محمد چوہدری کے دور میں کی گئی اسے قاضی فائز عیسیٰ نے پلیٹ میں رکھ کر سیاستدانوں کو لوٹا دیا۔ اب 26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی ہیئت ہی بدل چکی ہے ججز کی تقرری سے لے کر چیف جسٹس صاحبان کی تعیناتی تک سب کچھ سیاستدانوں کے ہاتھ میں آ چکا ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنے آپ کے جتنا با اختیار ہونے پر اترا رہے ہیں ان کے اختیار جب کوئی اور استعمال کرجائے گا پھر یہ ہاتھ ملیں گے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔ سیاستدان عدالتی ڈھانچہ تبدیل کرکے بڑے خوش ہو رہے ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ حکومت بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ سول حکومتوں کی مضبوطی کا ضامن سسٹم نہیں ہوتا سول حکومتوں کی مضبوطی عوام کی پذیرائی سے ہوتی ہے۔ جس کے ساتھ عوام ہوں وہ مضبوط ہوتا ہے۔ سسٹم جتنا مرضی کمزور حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے دنیا جہان کے اختیارات اس کی جھولی میں ڈال دے، اگر عوام اس حکومت کو پسند نہیں کرتے تو وہ کبھی بھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے سیاسی استحکام کے لیے عوامی مزاج کو سمجھنا ہوگا اور ان کی توقعات کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم جو فضا میں ہوائی قلعے تعمیر کر رہے ہیں یہ زمین پر استحکام نہیں لا سکتے۔ اگر عملی طور پر عوام کو جسٹس سسٹم میں فوری اور سستا انصاف نہیں ملتا تو پھر انھیں کسی ترمیم سے کوئی سروکار نہیں۔ نئی ترمیم کے بعد خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اس ترمیم کے بعد جو عدالتی ڈھانچہ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں انھیں سمجھنے اور لاگو کرنے میں بڑا وقت لگے گا جبکہ اس کے مضر اثرات ابھی سے شروع ہو چکے ہیں۔ اب سب سے بڑا پھڈا آئینی بنچ اور روٹین کی عدالتوں کے اختیارات کا پڑیگا۔
وکلاءصاحبان کیسوں کو التوا میں رکھنے کے لیے ہر کیس پر پھڈا ڈال لیا کریں گے کہ یہ آئینی بنچ کا کیس ہے۔ یہ نہیں ہے جب تک نئے قواعد و ضوابط وضع نہیں ہوتے اور یہ طے نہیں ہو جاتا بلکہ ایک ایک کیس کی وضاحت نہیں ہو جاتی کہ یہ کیس کس بنچ میں چلے گا اس وقت تک سسٹم جمود کا شکار رہے گا۔ حکمرانوں نے جلد بازی میں ترمیم کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب تو سجا لیا ہے لیکن نئے سسٹم کے قواعد و ضوابط وضع نہیں کیے۔ عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کی جو مہم چلائی گئی ابھی تو اسکے اثرات بھی بھگتنے پڑیں گے تاہم جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اور من پسند چیف جسٹس نہ لگانے پر شاید تحریک انصاف کوئی احتجاجی تحریک چلائے گی تو وہ سارا معاملہ ہضم ہو چکا تحریک انصاف نے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کو دل سے قبول کر لیا ہے۔ کچھ وکلاءابھی اس پر اندر کھاتے دھونی دکھا رہے ہیں لیکن اس ایشو پر نہ تو احتجاج کارگر ہو گا اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اور وکلاءاس پر سیاست چمکانے کی کوشش کریں گے البتہ آئینی ترمیم پر تادیر بحث مباحثے جاری رہیں گے۔ ابھی تو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ایکٹ کا تاریخ نے فیصلہ بھی کرنا ہے کہ عوام انھیں کس نظر سے دیکھتے ہیں بہت ساری سبکدوش ہونے والی شخصیات اب گمنامی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ویسے ریٹائر ہونے والے اعلی عہدے داروں کو وطن عزیز میں رہ کر عوام کو فیس کرنا چاہیے۔