گزشتہ روز واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ نان فائلر سے متعلق قانونی کور کی ضرورت ہے اور ہم نان فائلر کی اصطلاح ہی ختم کر رہے ہیں۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ نان فائلر گاڑیاں اور جائیدایں نہیں خرید سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام ریٹنگ ایجنسیاں تسلیم کر رہی ہیں کہ پاکستانی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، معیشت کی بہتری کیلئے مزید مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ چھ ماہ سے معاشی بہتری کیلئے مسلسل کام کر رہے ہیں جس کے سبب پاکستان میں مہنگائی کی شرح اور پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے، ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 9 فیصد سے 13 فیصد تک لائیں گے۔ کوشش ہوگی کہ آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے جو اقدامات ناگزیر ہیں‘ انہیں ہرصورت بروئے کار لایا جائے۔ بقول وزیر خزانہ وہ معاشی بہتری کیلئے مسلسل کام کر رہے ہیں جس سے مہنگائی کی شرح اور پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی میں کمی کے تمام تر حکومتی دعوﺅں کے باوجود عام آدمی اب بھی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے اور دن رات محنت مشقت کرکے بھی وہ اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ ایک ماچس کی ڈبی خریدنے سے لے کر پٹرول‘ گیس‘ اشیائے ضروریہ سمیت یوٹیلٹی بلوں میں جائز اور ناجائز ٹیکسز باقاعدگی سے ادا کررہا ہے‘ مگر حکومت پھر بھی اسے ٹیکس ڈیفالٹر قرار دیتی ہے اور آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلئے اس پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب عام آدمی حکومتی منشاءکے مطابق تمام تر ٹیکسز ادا کر رہا ہے تو وہ نان فائلرز کی کیٹیگری میں کیسے آسکتا ہے‘ حکومت کو اسکی وضاحت کرنی چاہیے۔ اس پر گاڑی اور جائیداد کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کرنا درحقیقت عام آدمی کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ عوام پہلے ہی بدترین مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں‘ اگر اسکی عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) بڑھانا مقصود ہے تو اس کیلئے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے غریب عوام کو فائلرز ‘ نان فائلرز اور ٹیکسوں کے جھنجھٹ میں نہ الجھائے۔ حکومت کو اپنا شکنجہ اشرافیہ طبقات پرکسنا چاہیے۔
وزیر خزانہ کے نان فائلرز پر مزید پابندیوں کی ”نوید“
Oct 29, 2024