سموگ میں ڈوبا لاہور۔

گزشتہ ہفتے جمعرات سے اتوار تک تین راتیں اور چار دن لاہور میں رہا ہوں۔ میری بہن کی بیٹی کی شادی تھی۔ اپنے خاندان کا بڑا ہونے کی وجہ سے میری اس شادی سے متعلق ہر تقریب میں شرکت لازمی تھی۔ میرے دیرینہ قاری اگرچہ اس حقیقت سے اب تک بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں کہ میں گزشتہ کئی برسوں سے لاہور جانے سے گھبراتا ہوں۔ بارہ دروازوں کے اندر بسے میرے بچپن کا شہر اب نودولتیوں سے مختص ثقافت کی نصابی مثال بن چکا ہے۔ وہ خلوص اور سادگی اس شہر سے کاملاََ غائب ہوچکی ہے جو میرے لئے بچپن میں حفاظتی شیلڈ کی طرح تھی۔ کئی حوالوں سے ماں کی گود کا پھیلائو۔
بہرحال رات گزارنے کے بعد صبح ناشتے کے لئے گلبرگ میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے ہوٹل کی چھت پر گیا۔ وہاں بیٹھے ہی دم گھٹتا محسوس ہوا۔ جہاں تک نگاہ جاتی وہاں فلک کو چھوتی عمارتیں کنکریٹ کے جنگل کا تاثر دیتیں۔ کوئی ایک عمارت بھی اپنے ڈیزا ئن سے یہ پیغام دیتی نظر نہ آئی کہ یہ اس شہر میں تعمیر ہوئی ہے جسے آج سے کئی سوبرس پہلے یورپ سے آنے والے سیاح نہایت حسد ورشک سے تہذیب وتمدن کی جاندار علامت قرار دیتے تھے۔ صبح کے نو بج چکے تھے مگر جس مقام پر میں بیٹھا ہوا تھا وہاں سے ڈیڑھ یا دوکلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر کھڑی عمارتیں یہ احساس اجاگر کرتیں کہ جیسے انہوں نے گرد اور دھوئیں کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ دورِ حاضر میں اس چادر کو ’’سموگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا ذکر تو بہت ہوتا ہے مگر عملی زندگی میں حکومت اور معاشرہ اس کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات لیتا نظر نہیں آتا۔
ناشتے کے بعد نہادھوکر شادی سے وابستہ سماجی ذمہ داریوں سے رجوع کرنا شروع کیا تو اچانک احساس ہوا کہ میری آنکھوں میں مسلسل جلن ہورہی ہے۔ کرونا کی وباء￿ کے دنوں میں احساس ہوا تھا کہ مجھے عینک کا نمبر بدلنے کی ضرورت ہے۔ نیا نمبر طے کروانے کے لئے مگر عینک ساز کے پاس گیا تو اس نے گھبراہٹ میں اعلان کردیا کہ میری آنکھیں کالے موتیا کا شکار ہورہی ہیں۔ مجھے عینک کا نمبر بدلوانے کی بجائے آنکھوں کا آپریشن کروانا ہوگا۔ موصوف کی مہربانی ہی سے آنکھوں کے ایک نہایت تجربہ کار معالج دریافت ہوئے۔ انہوں نے پیشہ وارانہ لگن کے ساتھ دو گھنٹوں تک مختلف النوع آلات سے میری آنکھوں کو جانچا۔ بالآخر طے یہ ہوا کہ میری بائیں آنکھ کی قوت بینائی کا 20فی صد ضائع ہوچکا ہے۔ فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ میں اگر دن میں تین سے چار گھنٹوں کے وقفے کے بعد اپنی آنکھوں میں دوائی کے قطرے ڈال کر انہیں خشک نہ ہونے دوں تو کم از کم مزید ایک برس تک آپریشن سے بچاجاسکتا ہے۔ مہربان طبیب مصررہے کہ انسانوں کو فطری طورپر میسر قوت بینائی پر ہی انحصارکرنا چا ہیے۔ یہ قطعاََ کسی کام نہ آئے تب ہی آپریشن کے مرحلے سے گزرا جائے۔ حیران کن بات یہ ہوئی کہ مجھے آنکھوں میں دوائی کے قطرے ڈالتے دو نہیں بلکہ تین برس گزرچکے ہیں۔ میری عینک کانمبر بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ایسے عالم میں مجھے سمجھ نہ آئی کہ لاہور پہنچتے ہی میری آنکھوں میں جلن کیوں شروع ہوگئی ہے۔ دودن گزرنے کے بعد معاملہ فقط جلن تک ہی محدود نہیں رہا۔ مجھے باریک الفاظ پڑھنے میں بھی نہایت دِقت محسوس ہونا شروع ہوگئی۔
شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے چند مہمان امریکہ اور برطانیہ سے بھی آئے ہوئے تھے۔ ان میں کم سن بچے بھی شامل تھے۔ ان میں سے تقریباََ ہر دوسرے بچے کی ماں فکر مند تھی کہ لاہور پہنچنے کے چند دن بعد ہی ان کے بچے نزلہ،زکام اور کھانسی کا شکار ہونے کے بعد بخار میں تڑپنا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ ڈاکٹروں کے پھیرے لگارہی ہیں۔ لاہور کے ’’گندے پانی‘‘ یا ’’مرچوں والے کھانوں‘‘ کو بچوں کی بیماری کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ شادی کی تقاریب بہرحال جاری رہیں۔ ان میں شریک بے شمار ایسے مہمانوں سے طویل گفتگو کی جو ہر حوالے سے لاہور کے جم پل ہی نہیں اس شہر کے رہائشی ہونے پر بھی بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی ’’سموگ‘‘ کی وجہ سے لاہور پر نازل ہوئی وبا?ں اور مشکلات کا ذکر نہیں کیا۔ ذاتی گپ شپ کے دوران کاروباری حضرات کی اکثریت ان کی دانست میں اسلام آباد سے آئے ’’اندر کی خبر‘‘ رکھنے والے صحافی سے محض یہ جاننے کوبے چین تھی کہ عمران خان کب رہا ہوں گے۔ نہایت شدت سے وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے ’’ہر کاروبار کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔‘‘عمران اور حکومت کے مابین ’’جنگ کا خاتمہ‘‘ ہی مارکیٹ میں رونق لگاسکتا ہے اور اگر اس ’’جنگ‘‘ نے ختم نہیں ہونا تو ملک سے نقل مکانی ہی میں عافیت ہے۔ 
بطور صحافی پیشہ وارانہ تجسس سے میں مسلسل سوال اٹھاتا رہا جن کا دیانتدارانہ مقصد یہ جاننا تھا کہ کاروبار تباہ ہونے کا فقط موجودہ حکومت کو ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ عمران حکومت کے دوران بھی ہوا تھا۔ ان پر عمل کرنے کے بجائے سابق وزیر اعظم امریکہ کا دل جلانے روس کے دورے پر چلے گئے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو منجمد کردیا۔ بالآخر ہم دیوالیہ ہونے لگے تو آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کرنا پڑا۔ اس نے ’’ڈومور‘‘ والی شرائط لگاکر ہمارا جینا اجیرن کردیا ہے۔ فرض کیا عمران خان جیل سے رہا ہوکر اقتدار میں لوٹ بھی آئیں تو معاشی حقائق تو ویسے ہی رہیں گے جیسے ان دنوں ہیں۔ میرے تجسس بھرے سوالات کا مگر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
حکومت کے چند نمائندوں سے بھی شادی کی تقاریب میں ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مصر رہے کہ انہوں نے ’’حالات سنبھال لئے ہیں۔‘‘ ملک معاشی اعتبار سے بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ریٹنگز کا مبینہ طورپر غلام ہوا میڈیا اور خاص طورپر یوٹیوب چینلوں کے ذریعے مبینہ طورپر زیادہ سے زیادہ ڈالر کمانے کو بے چین میڈیا والے مگر لوگوں کو’’اچھی خبریں‘‘ سنانے سے گریز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کے طعنے بھی دل پرپتھر رکھے برداشت کرتا رہا۔ بالآخراتوار کی صبح ہوگئی۔ ٹی وی کھولا تو خبر ملی کہ اس دن لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا گنداترین شہر بن چکا تھا۔ ولیمے کی تقریب میں شریک کئی مہمانوں سے میری ذاتی طورپر طویل گفتگو ہوئی۔ ان میں سے ایک بھی دنیا کے ’’گندے ترین‘‘ شہر قرار پائے لاہور کا رہائشی ہونے کے بارے میں فکر مند نہیں تھا۔ زیادہ تر افراد یہ جاننا چاہ رہے تھے کے سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے مقابلے میں بہتر ہوں گے یا بدتر۔ میری آنکھوں کو جلاتی اور بچوں کو بیماریوں کا نشانہ بناتی سموگ کسی ایک مہمان کو فکرمند بناتی سنائی نہ دی۔

ای پیپر دی نیشن