ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملے کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے۔
یہ ہدایت انہوں نے کسے دی؟۔ ایرانی میڈیا تو پہلے ہی سرکاری موقف نشر کر رہا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے ہونے والا نقصان بہت معمولی اور محدود تھا۔ تفصیل تو بیرونی میڈیا پر ہے جو ان کی ہدایت خاطر میں لانے سے رہا۔
الجزیرہ نے لکھا ہے کہ ایرانی قیادت پریشان اور خوف میں گھری ہوئی ہے۔ پریشانی اس بات کی کہ وہ اسرائیل کے حالیہ حملے کا جواب دے کر پہلے سے زیادہ بڑی اسرائیلی کارروائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا اور خوف اس بات کا کہ اس سے ایران کی کمزوری عیاں ہو جائے گی۔
ایران کی کمزوری لیکن پہلے ہی عیاں ہو چکی ہے۔ سو سے زیادہ اسرائیلی طیارے پانچ گھنٹے تہران شیراز اور دوسرے مقامات کی فضائوں پر محو پرواز رہے اور مسلسل بمباری کرتے رہے لیکن ایران ان میں سے کسی ایک جہاز کو بھی گرا نہیں پایا۔ اس کا فضائی دفاع کا نظام سرے سے حرکت میں نہیں آ سکا۔ اس بات سے غیر ملکی میڈیا کی ان رپورٹوں کی تصدیق سی ہو جاتی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ (حالیہ سے پہلے والے) اسرائیلی حملے نے کم از کم تہران کا فضائی دفاعی نظام مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔
لیکن تہران کے پاس روس کا ایس 300 میزائل سسٹم تو موجود تھا۔ وہ بھی حرکت میں نہیں آیا، کیوں؟۔ حالیہ حملے میں وہ بھی مکمل طور پر اسرائیل نے تباہ کر دیا۔ یہ نظام ایران نے 8 برس پہلے لیا تھا۔
علاوہ ازیں ایران کی میزائل ساز صنعت کو بھی اسرائیل نے تباہ کر دیا۔ یورپی امریکی دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صنعت کی بحالی میں ایران کو چھ سات برس لگ جائیں گے۔
اسرائیل کے پاس ایران کی میزائل ساز صنعت کے ایک ایک یونٹ کی تفصیل موجود تھی۔ اتنی گہری مخبری اسے کیسے ہوئی۔ ایک ایرانی مذہبی رہنما کا بیان موجود ہے کہ اسرائیل کے ایجنٹ پاسداران کی صفوں میں گھسے ہوئے ہیں۔
ایران جوابی حملہ شاید نہیں کرے گا۔ اس کے میزائل ناکارہ جائیں گے لیکن اسرائیل کو زیادہ بڑا حملہ کرنے کا موقع مل جائے گا جس کا دفاع ایران، حسب سابق، نہیں کر پائے گا۔
اسرائیل کا ابتدائی منصوبہ پہلے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر، پھر تیل کے ذخائر پر حملے کا تھا۔ امریکہ نے ان دونوں عزائم سے اسرائیل کو سختی کے ساتھ روک دیا۔ تیسرا منصوبہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنانے کا تھا لیکن اسرائیل نے یہ ارادہ بھی ملتوی کر دیا اور میزائل کی صنعت کو نشانہ بنایا۔ جو تباہ ہو گئی۔
اس کے نتیجے میں لبنان کی حزب اللہ اور شمالی یمن کے حوثی دونوں متاثر ہوں گے۔ دونوں کی میزائل پاور ایرانی سپلائی پر انحصار کرتی ہے جو اب پہلے کی طرح نہیں ہو سکے گی۔ البتہ حزب اور حوثی، دونوں نے ڈرون طیارے بنانے کی مقامی صلاحیت حاصل کر لی ہے چنانچہ ان کی یہ صلاحیت متاثر نہیں ہو گی۔
حزب کا معاملہ البتہ دوسرے معنوں میں پریشان کن ہو چکا ہے۔ اسرائیل نے اس کی صف اوّل ، دوئم اور سوئم کی ساری قیادت ختم کر دی ہے۔ اس کے میزائل ڈرون اور دیگر ہتھیاروں کے بیشتر ڈپو تباہ کر دئیے ہیں۔ اگرچہ اس کے باوجود اس کے پاس اب بھی ہتھیاروں کا ایسا ذخیرہ موجود ہے جو قلیل مدّت کیلئے کافی ہے۔
حزب کا سب سے بڑا گڑھ بیروت کا علاقہ الضاحیہ برباد کیا جا چکا ہے۔ اس پر ویسی ہی بمباری ہوئی ہے جیسی غزہ پر ہوئی۔ وہ یہ کہ حزب کے لوگ جان بچا کر شام چلے گئے اور الضاحیہ کو خالی کر گئے۔ غزہ کے لوگ کسی بھی جگہ پناہ نہیں لے سکتے چنانچہ وہ مسلسل مارے جا رہے ہیں۔ الضاحیہ کوئی محلّہ نہیں۔ یہ ایک چوتھائی بیروت ہے۔ اس کی تباہی سے حزب مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور لبنانی حکومت نے 1980ء کے بعد، پہلی بار یہ بیان دیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد وہ مسلح حزب اللہ کا وجود برداشت نہیں کرے گی۔ دوسرے معنوں میں لبنان پر ایرانی گرفت ختم ہو رہی ہے۔ یہ ایسا سنیاریو ہے جس کی توقع سال بھر پہلے کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا۔
____
میرے پرانے دفتر میں ایک بھولا بھالا آدمی قاصد کی ڈیوٹی کرتا تھا۔ اس کی شادی کراچی میں طے پائی۔ وہ بارات لے کر کراچی گیا تو، نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ انوکھا سانحہ ہوا کہ اس کی دلہن کے گھر والوں نے اس کی شادی، ایک روز پہلے کسی اور جگہ کر دی۔ یہ دولہا میاں جب پہنچے تو نئے دولہا کا ولیمہ ہو رہا تھا۔
یہ ہکّا بکّا رہ گئے اور واپسی کا سوچا لیکن دولہن والوں نے کہا کہ اب آ ہی گئے ہو تو ولیمہ کھا کر جائو۔ چنانچہ انہوں نے بریانی قورمہ کھایا اور واپس لوٹ آئے۔ یعنی اپنی ہی دولہن کے دوسرے میاں کا ولیمہ کھایا۔
ڈیڑھ ہفتہ پہلے کی بات ہے، گنڈاپور، وزیر اعلیٰ پختونخواہ ، گھن گھرج کے ساتھ اعلان کیا کہ کسی کا باپ بھی ہمارے چیف جسٹس کو نہیں روک سکتا۔ حکومت نے کسی اور کو چیف لگانے کی کوشش کی تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور پورا ملک جام کر دیں گے۔
حکومت نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگا دیا۔ جناب یحییٰ آفریدی صاحب کی تقریب حلف برداری ہوئی تو گنڈاپور ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی آ کر پنڈال میں تشریف فرما ہو گئے۔ حلف برداری پر تالیاں بھی بجائیں اور پھر بریانی قورمہ کھا کر سب سے آخر میں پنڈال سے نکلے۔
____
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کا بیان آیا ہے کہ ’’مرشد‘‘ اگلی گرمیاں بھی جیل میں گزاریں گے۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مرشد بار بار یہ خواہش ظاہر کر چکے ہیں کہ حقیقی آزادی کی خاطر وہ مزید ایک سو سال جیل میں رہنے کو تیار ہیں۔ یعنی مزید ایک سو گرمیاں۔
تصور کیجئے، آج سے ٹھیک ایک سو سال بعد یعنی 2124ء میں مرشد جیل سے باہر آئیں گے تو وہ پہلا کام کیا کریں گے؟۔ شاید 175 ویں سالگرہ منانے کی تقریب کریں گے۔ پرنٹ میڈیا تو تب ہو گا نہیں۔ باقی میڈیا پر خبر آئے گی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی 175 ویں سالگرہ۔ بانی کی بجائے چیئرمین لکھیں گے کیونکہ کیونکہ تب تک، یقینا ، الیکشن کمشن ان کی پارٹی کی رجسٹریشن بحال کر چکا ہو گا۔ تقریب کے مہمان خصوصی 200 سالہ اعتزاز احسن ہوں گے۔
مرشد 100 سال بعد۔
Oct 29, 2024