فلسطین میں مسلسل مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی اس نسل کشی اور ظلم و بربریت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں، مسلم دنیا بھی مذمت کر رہی ہے، عالمی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں، فلسطین کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے لیکن ابھی تک دنیا نے مسلمانوں کے اس قتل عام کو روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ یہ بات طے ہے کہ خالی مذمتی قراردادوں، بیانات یا احتجاج سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس معاملے میں ایران کا موقف بہت واضح ہے اور ایران عملی طور پر بھی اسرائیل کے اس ظلم کا جواب دیتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے اور انسانیت کے علمبرداروں نے اسرائیل کو روکنے کے بجائے ایران کو دھمکیاں دینے کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں ایران اور اسرائیل کے مابین خاصی کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر فضائی حملے بھی کیے ہیں سو ان حالات میں یہ ممکن ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ مسجد اقصٰی بیت المقدس کے حوالے سے اگر کوئی جنگ چھڑ گئی تو پھر اسے عالمی جنگ بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ ابھی تک تو اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کو ظلم و تشدد، ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے، ایران اس عمل کی ناصرف واضح طور پر مخالفت کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی اسرائیل کو جواب دیتا ہے۔ اس طرح اگر کسی بھی وقت معاملات مزید بگڑ گئے، عالمی طاقتوں نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو پھر ایک عالمی جنگ ہمارے سامنے ہے۔ کیونکہ اگر ایران اور اسرائیل براہ راست اس جنگ کا حصہ بنتے ہیں تو ہر مسلم دنیا کے پاس ایران کی مدد، ایران کا ساتھی بننے سے کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ یہ ابھی صرف خیال ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مسلم دنیا کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ویسے تو اس وقت بھی امت مسلمہ امتحان میں ہے کیونکہ جس بے رحمی کے ساتھ فلسطین کے بہادر اور غیور مسلمان، کلمہ طیبہ پڑھنے، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو آخری نبی ماننے والے، نعرہ تکبیر بلند کرنے والے جوان اور بوڑھے، لڑکیاں اور لڑکے اور معصوم بچے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں یہ قربانیاں امت مسلمہ کے حکمرانوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ کیا ہو گا اگر روز قیامت فلسطین کے ان ننھے معصوموں بارے مسلم امہ کے حکمرانوں سے سوال ہو گیا ، کیا کسی کے پاس کوئی جواب ہو گا، سو جس نے جو سوچنا یا کرنا ہے آج ہی کر لے اور اگر اسرائیل ایران پر صرف اس لیے حملہ آور ہوتا ہے کہ ایران فلسطین کی حمایت کر رہا ہے تو پھر مسلم دنیا کے پاس ایران کی حمایت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
گذرے چند ماہ کے دوران دونوں ممالک میں کشیدگی ہے۔ اسرائیل نے یکم اکتوبر کے ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی دارالحکومت تہران، شیراز اور کرج پر فضائی حملہ بھی کیا ہے۔ تہران میں دھماکوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور اس کے قریبی شہر کرج میں پانچ دھماکوں کی آوازیں سنیں گئیں۔ پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹرکے قریب دھماکے سنے گئے جبکہ تہران پر اسرائیلی حملے کے بعد کئی مقامات پر آگ لگ گئی، تہران میں ایک عمارت میں آگ لگنے کی بھی اطلاع سامنے آئی تھی تاہم تہران کے محکمہ فائر بریگیڈ نے واضح کیا تھا کہ اس عمارت کا وزارت دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران نے اسرائیل کو حالیہ حملے کا جواب دینے کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کے مطابق صیہونی حکومت کو یقینی اور مؤثر جواب دینے کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کریں گے۔ ہمارے ردعمل کی نوعیت اسرائیلی حملے کی نوعیت پر منحصر ہے۔
واضح رہے اسرائیل نے گزشتہ دنوں ایرانی فوجی مقامات پر فضائی حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں چار ایرانی فوجی جاں بحق ہوئے تھے ۔ ایرانی سپریم لیڈر نے بھی کہا ہے کہ صیہونی ایران کے حوالے سے غلط اندازہ لگا رہے ہیں اور وہ اب تک ایرانی عوام کی طاقت اور عزم کو نہیں سمجھ سکے، ہمیں انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے
اسرائیل اور ایران کے تعلقات کی تاریخ میں تبدیلیاں اور اختلافات کا ایک طویل سفر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی آپسی سیاست، نظریات اور مفادات میں بہت بڑے تضادات ہیں جو ان کے تعلقات کو نہ صرف پیچیدہ بلکہ متنازعہ بھی بناتے ہیں۔ 1979 کے اسلامی انقلاب سے قبل، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعاون اور دوستانہ تعلقات تھے، لیکن انقلاب کے بعد ایران کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں واضح تبدیلی آئی۔
1979 سے پہلے، ایران اور اسرائیل کے درمیان مثبت تعلقات تھے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت یافتہ اتحادی کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ ان کے درمیان تجارتی اور دفاعی معاہدے بھی تھے اور اسرائیل ایران کو فوجی اور تکنیکی مدد فراہم کرتا تھا۔ لیکن یہ تعلقات انقلاب کے بعد بالکل بدل گئے۔ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا جس کے بعد ایران نے اپنے نظریات اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلیاں کیں۔ ایران نے اسرائیل کو ‘‘صیہونی حکومت’’ قرار دے کر اسے ناجائز ریاست کہنا شروع کیا اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ ایران کی حکومت نے اسرائیل کو ایک دشمن ملک قرار دیا اور اسلامی مزاحمت کو فروغ دینے کی پالیسی اختیار کی۔ حالیہ برسوں میں، اسرائیل اور ایران کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کی سی کیفیت موجود ہے۔ اسرائیل نے ایران کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھا ہے کیونکہ ایران کی حکومت نہ صرف اسرائیل کی موجودگی کے خلاف ہے بلکہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کے نیوکلیئر پروگرام نے اسرائیل کو مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اسرائیل نے اس کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں اسرائیل کی تشویش ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار تیار کر لیتا ہے تو اس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکنے کیلئے امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر اقدامات کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اس پروگرام کو اپنی قومی سلامتی اور توانائی کی ضروریات کیلئے ضروری قرار دیتا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگیں بھی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں جاری ہیں۔ لبنان، شام، یمن اور عراق میں ایران کے حمایتی گروپوں کی موجودگی اور اسرائیل کے خلاف ان کی سرگرمیاں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ حزب اللہ اور حماس جیسے گروپس کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جبکہ اسرائیل ان گروپوں کو اپنے لئے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات کا اثر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست پر بھی پڑتا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ہیں اور اس پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں، جبکہ روس اور چین ایران کے حق میں ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح اسرائیل اور ایران کے تعلقات ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بہتری کی امید کم ہے کیونکہ دونوں ممالک کے نظریات اور مقاصد میں بہت بڑا فرق ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کی سفارتی کوششیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے کی جانے والی کاوشیں ممکنہ طور پر اس تنازعے میں کچھ بہتری لا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات میں بہتری اور امن کیلئے کوششیں ممکن ہیں جو کہ مستقبل میں کسی بہتر صورتحال کا آغاز کر سکتی ہیں۔اسرائیل اور ایران کے تعلقات نہایت پیچیدہ اور نازک ہیں۔ ان تعلقات میں بہتری تبھی ممکن ہے جب دونوں ممالک اپنے اختلافات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کریں اور خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لئے حقیقی طور پر دلچسپی ظاہر کریں۔ بظاہر اس کا امکان بہت کم ہے۔ چونکہ بنیادی مسئلہ مذہبی اختلاف ہے اور یہ ختم نہیں ہو سکتا۔ اس معاملے میں شدت اور سختی کے امکانات زیادہ ہیں۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دئیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجد کھلا نہیں کرتے