سینئر اداکار ــ’’ فردوس جمال‘‘ دو سال قبل کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوئے اور کامیابی سے اس مرض کو شکست دی۔ تاہم دیگر بیماریوں کی وجہ سے آج کل ان کی طبیعت ناساز ہے۔ ان کا شمار ان اداکاروں میں ہوتاہے جو اپنی ذات میں اداکاری کا ادارہ ہیں۔ ان کی اداکاری اور کام دیکھ کر بہت سارے فنکاروں نے اس کام کے رموزو اوقاف سیکھے۔ فردوس جمال کو نہ صرف شائقین کی طرف سے بھی بھرپور پذیرائی ملی، بلکہ حکومت پاکستان نے بھی ان کے کام کے اعتراف میں انہیں ایوارڈز سے نوازا۔فردوس جمال صاف بات کرنے کے عادی ہے جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو خاصی تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے بالکل بھی نہیں گھبراتے۔ گزشتہ دنوں ’’نوائے وقت‘‘ نے ان سے خصوصی ملاقات کی۔ فردوس جمال آج کل اپنی فیملی سے الگ ایک بوسیدہ گھر میں رہائش پذیر ہیں۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک میں صحتیاب تھامیں اپنے بچوں میں تھا میں نے ان کی اچھی پرورش کی آج وہ اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔میں نے بیمار ہونے کے بعد بیوی اور بچوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اہل خانہ میری تکلیف دیکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا ان کے ساتھ رابطہ تو ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ میرے بغیر پرسکون ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اب ویسے بھی تنہائی پسند ہو گیا ہوں، میری عادت ہے کہ میں کسی پر بوجھ نہیں بنا کرتا ،میں نہیں چاہتا کہ میری فیملی ہر وقت مجھے دیکھ کر عجیب محسوس کرے۔میرا اللہ پر بہت بھروسہ ہے اس لئے میں تنہائی سے نہیں گھبراتا اور خود کو علیحدہ کر لیتا ہوں۔ میں نے جب اپنا کیرئیر شروع کیا پشاور سے، اس کے ایک سال کے بعد میں لاہور میں آگیا ، یہاں کام شروع کیا تو اکیلا ہی رہا اور جب تک میں اپنے پا?ں پر نہیں کھڑا ہوگیا میں نے شادی نہیں کی، جیسے ہی میرا کام سیٹ ہوا ، تو میں نے اپنے فیملی کو لاہور بلوا لیا۔شادی کی ، میرے والدین آخری دم تک میرے ساتھ رہے۔ رہی بچوں کی بات تو والدین تو بچوںکی زمہ داریاں اٹھاتے ہیں لیکن بچے ایسا نہیں کرتے ، وہ جب شادی شدہ ہوجاتے ہیںتو اپنی زندگیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ،بیٹیاں پرائے گھروں کی ہوتی ہیں ہر کسی کی اپنی زندگی ہوتی ہے تو پھر کیوں کسی کی زندگی میں آپ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں۔ آپ نے جب ہمایوںسعید اور ماہرہ خان کی اداکاری پر بات کی تو آپ کے دونوں بیٹوں نے آپ کے بیان کے خلاف پوسٹ لگائی کیا کہیں گے ؟ اس سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ میں نے زندگی کے پچاس سال شوبزانڈسٹری کو دئیے ہیں اور مسلسل کام کررہا ہوںمیرے پاس فلم ٹی وی، ریڈیو تھیٹر کا تجربہ ہے ، جن لوگوں سے میں نے کام سیکھا ان کو میرے بچے نہیں جانتے ، ان کے پاس وہ تجربہ ہی نہیں جو میرے پاس ہے تو یقینا وہ میری باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ہر کسی کو ہر کسی کی بات سے اختلاف کرنے کا حق ہے اور اسکو انسانی آزادی کہتے ہیں۔ اب اگر میں کسی کو ناپسند کرتا ہوں تو مجھ پہ اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے کہ مجھے فلاں کیوںناپسند ہے اسی طرح سے کسی کو کوئی ناپسند ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ بھئی ایسا کیوں ہے۔
جب آپ نے اداکاروںپر تنقید کی توہم ٹی وی نے آپ پر بین لگا دیا ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو اتنی سخت باتیں نہیں کرنی چاہیں؟ اس سوال کے جواب میںانہوں نے کہاکہ ہمیں خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے ، اللہ ہی رازق ہے اس پر ایمان ہونا چاہیے۔ہم ٹی وی ہو یا کوئی بھی ٹی وی یا کوئی بھی انسان وہ میرا رازق نہیں ہے۔ اتنی مخالفت کے باوجود خدا نے مجھے رزق دیا میرے بچے پل گئے۔بھئی اگر کسی میں کوئی خامی ہے اور میں اسکو ہائی لائٹ نہیں کرتا تو اسکا مطلب یہ ہواکہ میں منافق ہوں۔اللہ کے سوا کسی اور سے رزق کی امیدیںلگانے والے دنیا میں ذلیل و خوار ہی ہوتے ہیں۔ ایوارڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فردوس جمال نے کہا کہ سرکاری سطح پر ملنے والے ایوارڈز معتبر ہیںلیکن جوپرائیویٹ ایوارڈز ہیں ان کا تو کوئی معیار ہی نہیں ہے، وہ تو پی آر سے بھی مل جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مہوش حیات کو اگر سرکاری ایوارڈ ملتا ہے تو اچھی بات ہے، کیٹگریز ہوتی ہیں ایک پاپولیرٹی ایوارڈ ہوتا ہے وہ انہیں ملا تو اچھی بات ہے، اعتراض نہیں کیاجانا چاہیے اگر لوگ ان کو پسندکرتے ہیں تو یقینا ایوارڈ ان کا حق ہے۔ آرٹ اینڈ کرافٹ ایوارڈ کی کیٹگری بھی ہوتی ہے وہ بھی لوگوں کو ملتا ہے اور میرٹ پر ملتا ہے۔ایوارڈ ایک قسم کی حوصلہ افزائی ہی ہوتے ہیں کسی ایسے اداکار کو ایوارڈ مل جائے جو بہت اچھا نہیں ہے تو اسکا مطلب نہیں ہے کہ اسکا قد بڑا ہو گیا اور وہ بہت بڑا ایکٹر تسلیم کیا جائیگا، یا کسی منجھے ہوئے اداکار کو ایوارڈ نہیں ملتا تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں اداکاری کرنیکی اسکی پوٹینشل کم ہے۔ ایوارڈ ایوارڈ ہی ہوتا ہے اس کے ملنے نہ ملنے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوجاتا۔ فردوس جمال نے اپنے پسندیدہ اداکاروں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے محمد علی ، وحید مرار اور ندیم بیگ کے کام نے بہت متاثر کیا ۔
دلیپ کمار کا کام دیکھ کر بہت کچھ سیکھا۔ ہمارے لئے ہماری اکیڈمی ہمارے سینئرز تھے۔ آج کے ڈرامے میں کمی یا خوبی کیا دیکھتے ہیں؟آج کے ڈرامے کی خوبی یہ ہے کہ گلمیر ہے، لیکن خامی یہ کہ کونٹینٹ نہیں ہے ، مقصدیت نہیں ہے، پرفارمنس کمزور ہوتی ہے، جو جیسا ہے اس کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے۔اداکار وہ ہے جو عام زندگی میں کچھ اور ہو اور جب سکرین پر آئے تو کچھ اور لگے۔ میرے حساب سے آج ماڈلنگ ہو رہی ہے اداکاری نہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا یا افسوس کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں فردوس جمال نے کہا کہ میں انٹرنیشنل سٹار بننا چاہتا تھا نہیں بن سکا یہ میری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جس کام کے لئے اللہ نے آپ کو پیدا کیا ہے اسکو ایمانداری سے کریں ، دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں ، دکھ نہ دیں خوشیاں بانٹیں یہی انسانیت اور مسلمانیت ہے۔